Blog Archive

Friday 30 November 2012

Dars No. 31 Taqdeer تقدیر


درس نمبر31

تقدیر کے بارے میں مسلمان کا کیا عقیدہ ہونا چاہئے

تقدیر کا بیان

    عالم میں جو کچھ بھلا' برا ہوتا ہے۔ سب کو اﷲتعالیٰ اس کے ہونے سے پہلے ہمیشہ سے جانتا ہے اور اس نے اپنے اسی علم ازلی کے موافق پر بھلائی برائی مقدر فرمادی ہے''تقدیر'' اسی کا نام ہے جیسا ہونے والا ہے اور جو جیسا کرنے والا تھا اس کو پہلے ہی اﷲتعالیٰ نے اپنے علم سے جانا اور اسی کو لوح محفوظ پر لکھ دیا۔ تو یہ نہ سمجھو کہ جیسا اس نے لکھ دیا مجبوراً  ہم کو ویسا ہی کرنا پڑتا ہے بلکہ واقعہ یہ ہے جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا ہی اس نے بہت پہلے لکھ دیا۔ زید کے ذمہ برائی لکھی اس لئے کہ زید برائی کرنے والا تھا۔ اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا تو وہ زید کے لئے بھلائی لکھتا ۔ تو اﷲتعالیٰ نے تقدیر لکھ کر کسی کو بھلائی یا برائی کرنے پر مجبور نہیں کر دیا ہے۔

 (النبراس،مسئلۃالقضاء والقدر،ص۱۷۴۔۱۷۵/ شرح الملاء علی القاری علی الفقہ الاکبر، لم یجبراللہ احدًا من خلقہ،ص۴۸۔۵۳)

عقیدہ :۱تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروریات دین میں سے ہے تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اس امت کا ''مجوس'' بتایا ہے۔

 (المعتقد المنتقدمع المستند المعتمد،منہ (۱۴)الاعتقادبقضائہ وقدرہ، ص۵۱۔۵۲)

عقیدہ :۲تقدیر کے مسائل عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتے۔ اس لئے تقدیر کے مسائل میں زیادہ غور و فکر اور بحث و مباحثہ کرنا ہلاکت کا سبب ہے۔ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق وامیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی عنہما تقدیر کے مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرما گئے ہیں۔ پھر بھلا ہم تم کس گنتی میں ہیں کہ اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کریں۔ ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ ہم تقدیر پر ایمان لائیں۔ اور اس مشکل اور نازک مسئلہ میں ہرگز ہرگز کبھی بحث ومباحثہ اور حجت و تکرار نہ کریں کہ اسی میں ایمان کی سلامتی ہے۔

 (جامع الترمذی، کتاب القدر، باب ماجاء من التشدید فی الخوض فی القدر، رقم ۲۱۴۰،ج۴،ص۵۱/ المعجم الکبیر ،رقم ۱۴۲۳،ج۲،ص۹۵) واﷲ تعالیٰ اعلم۔

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

میرے صحابی Mery Sahabi

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Thursday 29 November 2012

Kunwen ka pani کنویں کا پانی

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Wednesday 28 November 2012

Dars No.30 Aasmani Kitaben آسمانی کتابیں


 
درس نمبر30

آسمانی کتابوں  کے بارے میں مسلمان کا کیا عقیدہ ہونا چاہئے

آسمانی کتابیں

عقیدہ :۱اﷲتعالیٰ نے جتنے صحیفے اور کتابیں آسمان سے نازل فرمائی ہیں سب حق ہیں اور سب اﷲتعالیٰ کا کلام ہیں۔ ان کتابوں میں جو کچھ ارشاد خداوندی ہوا۔ سب پر ایمان لانا اور ان کو سچ ماننا ضروری ہے۔

 (النبراس، بیان الکتب المنزلۃ،ص۲۹۰)

کسی ایک کتاب کا انکار کرنا کفر ہے۔

 (الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، فصل واعلم ان من استخف بالقرآن، الجزء الثانی، ص۲۶۴)

ہاں البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگلی کتابوں کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے امتوں کے سپرد فرمائی تھی مگر امتوں سے ان کتابوں کی حفاظت نہ ہوسکی۔ بلکہ شریر لوگوں نے ان کتابوں میں اپنی خواہش کے مطابق کمی بیشی کردی۔ لہٰذا جب کوئی بات ان کتابوں کی ہمارے سامنے پیش ہو تو وہ اگر قرآن مجید کے مطابق ہو جب تو ہم اس کی تصدیق کریں گے اور اگر وہ قرآن کے مخالف ہو تو ہم یقین کرلیں گے کہ یہ شریروں کی تحریف ہے اور ہم اس بات کو رد کردیں گے۔ اور اگر مخالفت یا موافقت کچھ بھی معلوم نہ ہو تو یہ حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تصدیق کریں نہ تکذیب کریں بلکہ یہ کہہ دیں کہ اﷲتعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ہمارا ایمان ہے۔

(تفسیر روح البیان، پ۱۴،الحجر:۹،ج۴،ص۴۴۳۔۴۴۴/ تفسیر الخازن، پ۱۴، الحجر:۹،ج۳،ص۹۵)

عقیدہ :۲دین اسلام چونکہ ہمیشہ رہنے والا دین ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اﷲتعالیٰ نے امت کے سپرد نہیں فرمائی بلکہ اس کی حفاظت خود اﷲتعالیٰ نے اپنے ذمہ رکھی ہے چنانچہ اس نے ارشاد فرمایا کہ۔

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿9﴾

    ''یعنی بے شک ہم نے قرآن اتارا۔ اور یقیناً ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔''(پ14،الحجر:9)
    اس لئے قرآن مجید میں کوئی کمی بیشی کردے یہ محال ہے ۔

        (حاشیۃ الجمل علی الجلالین،پ۱۴،الحجر:۹،ج۴،ص۱۸۳)

اور جو یہ کہے کہ قرآن میں کسی نے کچھ ردوبدل یا کم یا زیادہ کردیا ہے۔ وہ کافر ہے۔

 (الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، فصل واعلم ان من استخف بالقرآن، ص۲۶۴)

عقیدہ :۳اگلی کتابیں صرف نبیوں ہی کو یاد ہوا کرتی تھیں۔ لیکن یہ ہمارے نبی اور قرآن کا معجزہ ہے کہ قرآن مجید کو مسلمان کا بچہ بچہ یاد کرلیتا ہے۔

 (تفسیر روح البیان، پ۲۱،العنکبوت:۴۹،ج۶،ص۴۸۱/ تفسیر الخازن، پ۲۷،القمر:۱۷،ج۴،س۲۰۴)

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Dars No.29 Jinnat جنات


درس نمبر29

جنات کے بارے میں مسلمان کا کیا عقیدہ ہونا چاہئے

جن کا بیان

    اﷲتعالیٰ نے کچھ مخلوق کو آگ سے پیدا فرما کر ان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ جونسی شکل چاہیں بن جائیں۔ اس مخلوق کا نام ''جن'' ہے یہ بھی ہم کو دکھائی نہیں دیتے۔ یہ انسانوں کی طرح کھاتے پیتے' جیتے مرتے ہیں۔ ان کے بچے بھی پیدا ہوتے ہیں۔

 (پ۱۴،الحجر:۲۷/ التفسیر الکبیر، المسألۃ الثالثۃفی ان ابلیس ھل کان من الملائکۃ ام لا ۔۔۔۔ج۱،ص۴۲۹/ النبراس،مبحث الملائکۃ علیہم السلام،ص۲۸۷/ الیواقیت والجواہر، المبحث الثالث والعشرون فی اثبات وجودالجن۔۔۔الخ، الجزء الاول،ص۱۸۳)

اور ان میں مسلمان بھی ہیں اور کافر بھی۔ نیک بھی ہیں اور فاسق بھی۔

 (پ۲۹،الجن:۱۴۔۱۵/ تفسیر روح البیان،ج۱۰،ص۱۹۴،الیواقیت والجواہر،المبحث الثالث والعشرون فی اثبات وجود الجن ووجوب الایمان بھم،الجزء الاول،ص۱۸۲)

جن کے وجود کا انکار کرنے والا کافر ہے ۔
     (الفتاوٰی الرضویۃ الجدیدۃ،ج۲۹،ص۳۸۴)

کیونکہ جن ایک مخلوق ہیں یہ قرآن مجید سے ثابت ہے۔
    لہٰذا جن کے وجود کا انکار درحقیقت قرآن مجید کا انکار ہے۔
خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Kanon men seesa کانوں میں سیسہ

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Monday 26 November 2012

Pani Per Paidal پانی پر پیدل

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Sunday 25 November 2012

Saza سزا


 سزا
  حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وجود مبارک یزید کی بے قیدیوں کیلئے ایک زبردست محتسب تھا، وہ جانتا تھا کہ آپ کے زمانۂ مبارک میں اس کوبے مُہاری کا موقع میسر نہ آوے گا اور اس کی کسی کَجْ رَوی اور گمراہی پر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبر نہ فرمائیں گے، اس کو نظر آتاتھا کہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے دیندار کا تازیانۂ تعزیر ہروقت اس کے سر پر گھوم رہاہے اسی وجہ سے وہ اور بھی زیادہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان کا دشمن تھا اور اسی لیے حضرت اما م رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اس کیلئے باعث مسرت ہوئی۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سایہ اٹھنا تھا، یزید کھُل کھیلا اور انواع و اقسام کے معاصی کی گرم بازاری ہوگئی۔ زنا، لواطت، حرام کاری، بھائی بہن کا بیاہ، سود، شراب، دھڑلّے سے رائج ہوئے، نمازوں کی پابندی اٹھ گئی، تَمَرُّد و سرکَشی انتہا کوپہنچی، شَیْطَنَت نے یہاں تک زور کیاکہ مسلم ابن عقبہ کو بارہ ہزاریا بیس ہزار کا لشکرگراں لے کرمدینہ طیبہ کی چڑھائی کیلئے بھیجا۔ یہ 63ھ؁کاواقعہ ہے۔ اس نامراد لشکر نے مدینہ طیبہ میں وہ طوفان برپاکیا کہ العظمۃ للہ، قتل، غارت اور طرح طرح کے مظالم ہمسائیگانِ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ و بارک وسلم پرکیے۔ وہاں کے ساکنین کے گھرلوٹ لیے، سات سو صحابہ علیہم الرضوان کو شہید کیا اور دوسرے عام باشندے ملاکر دس ہزار سے زیادہ کو شہیدکیا، لڑکوں کو قید کرلیا، ایسی ایسی بد تمیزیاں کیں جن کا ذکر کرنا ناگوار ہے۔ مسجدنبوی شریف کے ستونوں میں گھوڑے باندھے، تین دن تک مسجد شریف میں لوگ نماز سے مشرف نہ ہوسکے۔ صرف حضرت سعید ابن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجنوں بن کر وہاں حاضرر ہے۔ حضرت عبداللہ ابن حنظلہ ابنِ غَسِیْل رضی اللہ تعالی عنہمانے فرمایا کہ یزیدیوں کے ناشائستہ حرکات اس حد پرپہنچے ہیں کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ ان کی بدکاریوں کی وجہ سے کہیں آسمان سے پتھر نہ برسیں۔ پھریہ لشکر ِشرارت اثر مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں امیرِ لشکر مرگیا اور دوسراشخص اس کا قائم مقام کیاگیا۔ مکہ معظمہ پہنچ کر ان بے دینوں نے مِنْجَنِیْق سے سنگ باری کی (منجنیق پتھر پھینکے کا آلہ ہوتا ہے جس سے پتھر پھینک کر مارا جاتا ہے اس کی زد بڑی زبردست اور دور کی مار ہوتی ہے) اس سنگ باری سے حرم شریف کاصحن مبارک پتھروں سے بھر گیا اور مسجد ِ حرام کے ستون ٹوٹ پڑے اور کعبہ مقدسہ کے غلاف شریف اورچھت کو ان بے دینوں نے جلادیا۔ اسی چھت میں اُس دنبہ کے سینگ بھی تبرک کے طور پر محفوظ تھے جو سیدنا حضرت اسمٰعیل علی نبینا و علیہ الصلوٰۃوالسلام کے فدیہ میں قربانی کیا گیا تھا وہ بھی جل گئے کعبہ مقدسہ کئی روز تک بے لباس رہا اور وہاں کے باشندے سخت مصیبت میں مبتلا رہے۔(1)
    آخرکار یزید پلید کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک فرمایا اور وہ بدنصیب تین برس سات مہینے تختِ حکومت پر شَیْطَنَت کرکےربیع الاول 64ھ؁ کو جس روز اس پلید کے حکم سے کعبۂ معظمہ کی بے حر متی ہوئی تھی ، شہر حمص ملک شام میں انتالیس برس کی عمر میں ہلاک ہوا۔ ہنوز قتال جاری تھا کہ یزید ناپاک کی ہلاکت کی خبر پہنچی، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ندافرمائی کہ اہل شام! تمہارا طاغوت ہلاک ہوگیا۔ یہ سن کر وہ لوگ ذلیل و خوار ہوئے اور لوگ ان پرٹوٹ پڑے اور وہ گر وہِ ناحق پژوہ خائب وخاسر ہوا۔ اہل مکہ کو ان کے شر سے نجات ملی۔ اہل حجاز،یمن وعراق وخراسان نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک پر بیعت کی اورا ہل مصر و شام نے معاویہ بن یزید کے ہاتھ پر ربیع الاول 64ھ؁ میں۔ یہ معاویہ اگرچہ یزید پلید کی اولاد سے تھا مگر آدمی نیک اور صالح تھا، باپ کے ناپاک افعال کو براجانتا تھا، عِنان حکومت ہاتھ میں لیتے وقت سے تادم مرگ بیمار ہی رہا اور کسی کام کی طرف نظر نہ ڈالی اور چالیس دن یا دوتین ماہ کی حکومت کے بعد اکیس سال کی عمر میں مرگیا۔ آخر وقت میں اس سے کہا گیا کہ کسی کو خلیفہ کرے اس کا جواب اس نے یہ دیا کہ میں نے خلافت میں کوئی حلاوت نہیں پائی تو میں اس تلخی میں کسی دوسرے کو کیوں مبتلا کروں۔(1)
    معاویہ بن یزید کے انتقال کے بعد اہل مصر و شام نے بھی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی پھر مروان بن حکم نے خروج کیا اور اس کو شام و مصر پر قبضہ حاصل ہوا۔ 65ھ؁ میں اس کا انتقال ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا عبدالملک اس کا قائم مقام ہوا۔ عبد الملک کے عہد میں مختار بن عبید ثقفی نے عمر بن سعد کو بلایا، ابن سعد کا بیٹا حفص حاضر ہوا۔ مختار نے دریافت کیا:تیراباپ کہاں ہے ؟ کہنے لگا کہ وہ خلوت نشین ہوگیا ہے ،گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ اس پر مختار نے کہاکہ اب وہ رے کی حکومت کہاں ہے جس کی چاہت میں فرزند ِرسول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے وفائی کی تھی، اب کیوں اس سے دست بردار ہوکر گھرمیں بیٹھا ہے۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شہادت کے روز کیوں خانہ نشین نہ ہوا۔ اس کے بعد مختار نے ابن سعد اور اس کے بیٹے اور شمرناپاک کی گردن مارنے کا حکم دیا اور ان سب کے سر کٹواکر حضرت محمد بن حنفیہ برادر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دئیے اور شمر کی لاش کو گھوڑوں کے سُمُوں سے روند وادیا جس سے اس کے سینہ اور پسلی کی ہڈیاں چکنا چور ہوگئیں۔ شمر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلوں میں سے ہے اور ابن سعد اس لشکر کاقافلہ سالاروکماندارتھا جس نے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مظالم کے طوفان توڑے آج ان ظالمانِ ستم شعار و مغرور انِ نابکار کے سرتن سے جدا کرکے دشت بدشت پھرائے جارہے ہیں اور دنیا میں کوئی ان کی بیکسی پر افسوس کرنے والا نہیں۔ ہر شخص ملامت کرتاہے اور نظرِ حقارت سے دیکھتا ہے اور ان کی اس ذلت و رسوائی کی موت پرخوش ہوتاہے۔ مسلمانوں نے مختار کے اس کارنامہ پر اظہار فرح کیا اور اس کودشمنانِ امام سے بدلہ لینے پر مبارکباد دی۔(1) ؎

اے ابن سعد!رے کی حکومت تو کیا ملی
ظلم و جفا کی جلد ہی تجھ کو سزا ملی
اے شمر نابکار!شہیدوں کے خون کی
کیسی سزا تجھے ابھی اے ناسزا ملی
اے تشنگانِ خونِ جوانانِ اہلِ بیت
دیکھا کہ تم کو ظلم کی کیسی سزا ملی
کتوں کی طرح لاشے تمہارے سڑا کئے
گُھورے پہ بھی نہ گور کو تمہاری جا ملی
رسوائے خلق ہوگئے برباد ہوگئے
مردودو! تم کو ذلتِ ہر دو سرا ملی
تم نے اُجاڑا حضرتِ زہرا کا بوستاں
تم خود اُجڑ گئے تمہیں یہ بد دعا ملی
دنیا پرستو!دین سے منہ موڑ کر تمہیں
دنیا ملی نہ عیش و طرب کی ہوا ملی
آخر دکھایا رنگ شہیدوں کے خون نے
سر کٹ گئے اماں نہ تمہیں اک ذرا ملی
پائی ہے کیا نعیم انہوں نے ابھی سزا
دیکھیں گے وہ جحیم میں جس دم سزا ملی

    اس کے بعد مختار نے ایک حکمِ عام دیا کہ کربلا میں جوجو شخص عمر بن سعد کا شریک تھا وہ جہاں پایا جائے مارڈالا جائے۔ یہ حکم سن کر کوفہ کے جفا شعار سورمابصرہ بھاگنا شروع ہوئے، مختار کے لشکر نے ان کا تعاقب کیاجس کو جہاں پایا ختم کردیا، لاشیں جلاڈالیں،گھرلوٹ لیے۔ خولی بن یزیدوہ خبیث ہے جس نے حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سرِ مبارک تنِ اقدس سے جدا کیا تھا، یہ روسیاہ بھی گرفتار کرکے مختار کے پاس لایا گیا۔ مختار نے پہلے اس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے پھر سولی چڑھایا، آخر آگ میں جھونک دیا۔ اس طرح لشکر ِابن سعد کے تمام اشرار کو طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا۔ چھ ہزار کوفی جو حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل میں شریک تھے ان کو مختار نے طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کردیا۔
خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Shaheed Zinda Hay شہید زندہ ہے

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Saturday 24 November 2012

Dars No. 28 : Farishtay فرشتے


درس نمبر28

فرشتوں کے بارے میں مسلمان کا کیا عقیدہ ہونا چاہئے

فرشتوں کا بیان

عقیدہ :۱خدا کی توحید اوراس کے رسولوں پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ فرشتوں کے وجود پر بھی ایمان لانا ضروریات دین میں سے ہے۔ فرشتوں کے وجود کا انکار کرنا کفر ہے۔

    (الفتاوی الرضویۃ الجدیدۃ ، ج۲۹،ص۳۸۴)

عقیدہ :۲اﷲتعالیٰ نے اپنی کچھ مخلوقات کو نور سے پیدا کرکے ان کو ہماری نظروں سے چھپادیا ہے اور ان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ جس شکل میں چاہیں اس شکل میں ظاہر ہوجائیں وہ کبھی انسان کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور کبھی دوسری شکلوں میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔

 (الیواقیت والجواہر، المبحث التاسع والثلاثون فی بیان صفۃ الملا ئکۃ واجنحتھاوحقائقھا۔۔۔الخ،الجزء الثانی ،ص۲۹۵/النبراس،مبحث الملائکۃعلیہم السلام،ص۲۸۷)

عقیدہ :۳فرشتے اﷲتعالیٰ کی معصوم مخلوق ہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں جو خدا کا حکم ہوتا ہے وہ خدا کے حکم کے خلاف کبھی کچھ نہیں کرتے۔ وہ ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں سے پاک ہیں۔

۲۸،التحریم:۶/ النبراس،مبحث الملائکہ علیہم السلام، ص۲۸۷)

عقیدہ :۴اﷲتعالیٰ نے ان فرشتوں کو مختلف کاموں میں لگا دیا ہے اور جن جن کو جو جو کام سپرد فرمادیئے ہیں۔ وہ ان کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ فرشتوں کی تعداد اﷲتعالیٰ ہی جانتا ہے جس نے ان کو پیدا فرمایا ہے اور اﷲتعالیٰ کے بتانے سے رسول بھی جانتے ہیں۔ ان میں چار فرشتے بہت مشہور ہیں۔ جو سب فرشتوں سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام ' حضرت میکائیل علیہ السلام ' حضرت اسرافیل علیہ السلام اور حضرت عزرائیل علیہ السلام ۔

 (پ۳۰،النّٰزعٰت:۱۔۵ / التفسیر الکبیر، المسألۃ فی شرح کثرۃ الملائکۃ، ج۱،ص۳۸۶)

عقیدہ :۵کسی فرشتہ کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔

 (مجمع الانھر، کتاب السیر والجھاد، باب المرتد، ثم ان الفاظ الکفر انواع، ج۲،ص۵۰۷/ البحرالرائق، کتاب السیر ، باب احکام المرتدین ، ج۵،ص۲۰۴۔۲۰۵)

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

شب بیداری Shab Bedari

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Friday 23 November 2012

5 Times Ghusl پانچ مرتبہ غسل

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Thursday 22 November 2012

امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ جون کرامتون

امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ جون کرامتون

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

The Miracles of Imam Hussain (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

The Miracles of Imam Hussain (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Imam e Hussain Ki Karamaat (Hindi) امام حسین کی کرامات

Imam Hussain (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) Ki Karamaat

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Imam Hussain Ki Karamaat (Gujrati)

Imam Hussain (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) Ki Karamaat

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Imam e Hussain Ki Karamaat امام حسین کی کرامات

امام حسین کی کرامات

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Karamaat e Sher e Khuda کراماتِ شیرِ خدا

کرامات شیر خدا

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Sawanhe Karbala سوانحِ کربلا

سوانح کربلا

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Kabala Ka Khoonin Manzar کربلا کا خونیں منظر

کربلا کا خونی منظر

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

2 روزے 2 Rozay

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Aankhen Na Dukhen آنکھیں نہ دکھیں

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Tuesday 20 November 2012

Dars no. 27 Sahaba Kiram صحابہ کرام


درس نمبر27

صحابہ کرام کے بارے میں مسلمان کا کیا عقیدہ ہونا چاہئے


    ہمارے حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو جن خوش نصیب مسلمانوں نے ایمان کی حالت میں دیکھا اور ایمان ہی پر ان کا خاتمہ ہوا۔ ان بزرگوں کو صحابی کہتے ہیں۔

 (فتح الباری شرح صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومن صحب النبی صلی اللہ علیہ وسلم...الخ، ج۸،ص۳۔۴ )

    ان حضرات کا درجہ ساری امت میں سب سے زیادہ بلند ہے اور اﷲتعالیٰ نے ان شمع نبوت کے پروانوں کو بڑی بڑی بزرگیاں عطافرمائی ہیں۔ یہاں تک کہ بڑے سے بڑے درجہ کے اولیاء بھی کسی کم سے کم درجے کے صحابی کے مرتبوں تک نہیں پہنچ سکتے۔

                   (بہارشریعت،ج۱،ح۱،ص۷۴)

    ان صحابہ علیھم الرضوان میں درجات و مراتب کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر چار صحابی ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲتعالی عنہ۔ یہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور دین اسلام کی جڑوں کو مضبوط کیا۔ اسی لئے یہ خلیفۂ اول کہلاتے ہیں نبیوں کے بعد تمام امتوں میں یہ سب سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کا درجہ ہے۔ یہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے دوسرے خلیفہ ہیں۔ ان کے بعد حضرت عثمان رضی اﷲ تعالی عنہ کا درجہ ہے۔ یہ ہمارے پیغمبر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے تیسرے خلیفہ ہیں۔

 (سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ ، باب فی التفضیل ، رقم ۴۶۲۸،ج۴،ص۲۷۳)

ان کے بعد حضرت علی رضی اﷲتعالی عنہ کا مرتبہ ہے۔ یہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے چوتھے خلیفہ ہیں۔

(المواہب اللدنیۃ ، المقصد السابع فی وجوب صحبتہ صلی اللہ علیہ وسلم ، الفصل الثالث، عثمان وعلی ، ج۳،ص۳۸۹)

عقیدہ :۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی نسبت اور تعلق کی وجہ سے تمام صحابہ کرام علیھم الرضوان کا ادب و احترام اور ان بزرگوں کے ساتھ محبت و عقیدت تمام مسلمانوں پر فرض ہے اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی آل و اولاد اور بیویاں اور اہل بیت اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے خاندان والے اور تمام وہ چیزیں جن کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے نسبت و تعلق ہو سب لائق تعظیم اور واجب الاحترام ہیں۔

 (المواہب اللدنیۃ، المقصد السابع فی وجوب صحبتہ صلی اللہ علیہ وسلم ، الفصل الثالث، حب الصحابۃ وعلاماتہ ، ج۳،ص۳۹۳)


خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Qabron Ki Ziyarat قبروں کی زیارت

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Monday 19 November 2012

Noorani Chehray نورانی چہرے

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Sunday 18 November 2012

JANNAT KE SARDAR جنت کے سردار

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Dars NO. 27 Hasnain e Karimain حسنین کریمین


درس نمبر27

فضائل امام حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما

    ایک بارحضرتِ امامِ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضرِخدمتِ اقدس ہوکر حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شانہہ مبارک پرسوارہوگئے،ایک صاحب نے عرض کیا :صاحبزاد ے آپ کی سواری کیسی اچھی ہے۔حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:''اور سوارکیسا اچھا سوار ہے۔

 (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمدالحسن...الخ،الحدیث ۳۸۰۹، ج۵،ص۴۳۲)

    حضورپرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سجدے میں تھے کہ امامِ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ پشت مبارک سے لپٹ گئے ،حضورعلیہ الصلوۃ و السلام نے سجدے کوطول دیاکہ سراٹھانے سے کہیں گرنہ جائیں ۔

 (مسند ابی یعلی،مسند انس بن مالک،الحدیث۳۴۱۵،ج۳،ص۲۱)

    امامِ حسن اورامامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی نسبت ارشاد ہوتاہے: ''ہمارے یہ دونوں بیٹے جوانانِ جنت کے سردارہیں ۔''

 (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث۳۷۹۳، ج۵،ص۴۲۶)

    اورفرمایاجاتاہے ''ان کا دوست ہمارادوست ،ان کادشمن ہمارادشمن ہے ۔ ''

 (سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ،باب فضل الحسن والحسین،الحدیث۱۴۳، ج۱،ص۹۶)

    اورفرماتے ہیں: صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ''یہ دونوں عرش کی تلواریں ہیں''۔اور فرماتے ہیں:صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم''حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے ہے اورمیں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوں ،اللہ عزوجل دوست رکھے اسے جوحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودوست رکھے، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سبط ہے اسباط سے ۔''

 (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث۳۸۰۰، ج۵،ص۴۲۹)

   ایک روز حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دہنے زانوپرامامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوربائیں پر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صاحبزادے حضرتِ ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے تھے ،حضرت جبریل علیہ السلام نے حاضرہوکر عرض کی کہ''ان دونوں کوخدا حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس نہ رکھے گاایک کواختیارفرمالیجئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جدائی گوارا نہ فرمائی ،تین دن کے بعد حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا ۔اس واقعہ کے بعد جب حاضر ہوتے،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم بوسے لیتے اورفرماتے: ''مرْحَبًا بِمَنْ فَدَیْتُہٗ بِاِبْنِیْ۔ ایسے کومرحباجس پر میں نے اپنا بیٹاقربان کیا۔  (تاریخ بغداد،ج۲،ص۲۰۰،بلفظ'' فدیت من '')

    اورفرماتے ہیں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ''یہ دونوں میرے بیٹے اورمیری بیٹی کے بیٹے ہیں،الٰہی!عزوجل میں ان کو دوست رکھتا ہوں توبھی انہیں دوست رکھ اوراسے دوست رکھ جوانہیں دوست رکھے ۔ ''

 (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث۳۷۹۴، ج۵،ص۴۲۷)

    بتول زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرماتے'' میرے دونوں بیٹوں کولاؤپھردونوں کو سونگھتے اورسینہ انورسے لگالیتے ۔ ''

 (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن...الخ،الحدیث۳۷۹۷، ج۵،ص۴۲۸ )


خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے