Blog Archive

Wednesday 31 October 2012

ظلم کا انجام Dars no. 11 Zulm Ka Anjam



درس نمبر11

موتیوں والا تاج

    ''اَلْقَوْلُ الْبَدِیع'' میں ہے: حضرتِ سیِّدُنا شیخ احمد بن منصور علیہ رَحمَۃُ اللہِ الغَفُورکو بعدِوفات کسی نے خواب میں اِس حال میں دیکھا کہ وہ جنَّتی حُلّہ (لباس) زيبِ تن کئے موتیوں والا تاج سر پر سجائے شِیراز کی جامِع مسجِد کی مِحراب میں کھڑے ہیں، خواب دیکھنے والے نے پوچھا:  مَا فَعَلَ اللہُ بِک؟ یعنی   اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا؟ کہا:   اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے بخش دیا، میرا اِکرام فرمایا اورموتیوں والا تاج پہنا کر داخلِ جنّت کیا۔ پوچھا : کس سبب سے؟فرمایا: اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّ میں محبوبِ ربُّ الانام صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کثرت سے دُرُود وسلام پڑھا کرتا تھایِہی عمل کام آگیا۔
                    (اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص۲۵۴)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !  صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

خوفناک ڈاکو

     شیخ عبداﷲ شافِعی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں : ایک بار میں شہر بصرہ سے ایک قَریہ(یعنی گاؤں) کی طرف جارہا تھا۔دوپَہَر کے وقت یکایک ایک خوفناک ڈاکو ہم پر حملہ آور ہوا،میرے رفیق(یعنی ساتھی) کو اس نے شہید کر ڈالا، ہمارا مال ومَتاع چِھین کر میرے دونوں ہاتھ رسّی سے باندھے ، مجھے زمین پر ڈالا اورفِرار ہوگیا۔میں نے جوں توں ہاتھ کھولے اور چل  پڑا مگر پریشانی کے عالم میں رستہ بھول گیا،یہاں تک کہ رات آگئی ۔ایک طرف آگ کی روشنی دیکھ کرمیں اُسی سَمت چلدیا، کچھ دیر چلنے کے بعد مجھے ایک خَیمہ نظر آیا، میں شدّتِ پیاس سے نڈھال ہوچکا تھا، لہٰذا خَیمے کے دروازے پرکھڑے ہوکر میں نے صدا لگائی: اَلْعَطَش! اَلْعَطَش! یعنی ''ہائے پیاس !ہائے پیاس!'' اِتِّفاق سے وہ خیمہ اُسی خوفناک ڈاکو کا تھا !میری پکار سن کر بجائے پانی کے ننگی تلوار لئے وہ باہَر نکلا اور چاہا کہ ایک ہی وار میں میرا کام تمام کردے،اُس کی بیوی آڑے آئی مگروہ نہ مانا اور مجھے گھسیٹتا ہوا دور جنگل میں لے آیا اورمیرے سینے پر چڑھ گیامیرے گلے پر تلوار رکھ کرمجھے ذَبح کرنے ہی والا تھا کہ یکایک جھاڑیوں کی طرف سے ایک شیر دَہاڑتا ہوا برآمد ہوا،شیرکو دیکھ کر خوف کے مارے ڈاکو دُور جا گرا ،شَير نے جھپٹ کر اُسے چیر پھاڑ ڈالا اور جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔ میں اس غيبی امداد پر خدا عزوجل کا شکر بجا لایا۔            
 سچ ہے کہ بُرے کام کا انجام برا ہے

ظالم کو مُہلَت ملتی ہے

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے؟ ظلم کا انجام کس قدر بھیانک ہے۔ حضرت سیِّدُنا شیخ محمد بن اسمٰعیل بخاری علیہ ر حمۃ الباری ''صَحِیح بُخاری'' میں نقل کرتے ہیں: حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، سرکارِمدینۂ منوّرہ،سردارِمکّۂ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک   اللہ عَزَّوَجَلَّ ظالم کومُہلَت دیتاہے یہاں تک کہ جب اس کو اپنی پکڑ میں لیتا ہے تو پھراس کو نہیں چھوڑتا۔ یہ فرما کر سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پارہ 12 سورۂ  ہُود کی آیت 102تلاوت فرمائی:

 وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ؕ اِنَّ اَخْذَہٗۤ اَلِیۡمٌ شَدِیۡدٌ ﴿۱۰۲

ترجَمۂ کنزالایمان: اور ایسی ہی پکڑ ہے تیرے رب(عزوجل) کی جب بستیوں کو پکڑتا ہے ان کے ظلم پر۔ بے شک اس کی پکڑ دردناک کرّی ہے۔


    دہشت گردوں ، لیٹروں، قتل و غارتگری کا بازار گرم کرنے والوں کو بیان کردہ حکایت سے عبرت حاصل کرنی چاہئے ، انہیں اپنے انجام سے بے خبر نہیں رہنا چاہئے کہ جب دنیا میں بھی قہر کی بجلی گرتی ہے تو اس طرح کے ظالم لو گ کُتّے کی موت مارے جاتے ہیں اور ان پر دو آنسو بہانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا اور آہ! آخِرت کی سزا کون برداشت کر سکتا ہے!یقینا لوگوں پر ظلم کرناگناہ، دنیا وآخِرت کی بربادی کا سبب اور عذابِ جہنَّم کا باعِث ہے۔اس میں اﷲورسول عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی بھی ہے اور بندوں کی حق تلفی بھی۔ حضرتِ جُرجانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی اپنی کتاب ''اَلتَّعرِیفات'' میں ظلم کے معنٰی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ کہیں اور رکھنا۔  (التعریفات للجر جانی ص ۱۰۲ )  شریعت میں ظلم سے مراد یہ ہے کہ کسی کا حق مارنا ، کسی کو غیر محل میں خرچ کرنا، کسی کوبِغیرقُصُور کے سزا دینا۔ (مراٰۃ ج۶ ص ۶۶۹) جس خوفناک ڈاکو کا ابھی آپ نے تذکِرہ سماعت فرمایا، وہ لوٹ مار کی خاطر قتلِ ناحق بھی کرتا تھا، دُنیا ہی میں اس نے ظلم کا انجام دیکھ لیا۔ نہ جانے اب اس کی قَبْر میں کیا ہورہا  ہوگا! نیز قیامت کا مُعامَلہ ابھی باقی ہے۔ آج بھی ڈاکوعُموماً مال کے لالچ میں قتل بھی کر ڈالتے ہیں۔ یاد رکھئے! قتلِ ناحَق انتِہائی بھیانک جُرم ہے۔

اَوندھے منہ جہنَّم میں

     حضرتِ سیِّدُنا محمد بن عیسٰی ترمِذی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی اپنے مشہور مجموعۂ احادیثِ    '' تِرمِذی'' میں حضراتِ سیِّدَینا ابوسعید خُدری و ابوہُریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے نَقل کرتے ہیں:''اگرتمام آسمان و زمین والے ایک مسلمان کا خون کرنے میں شریک ہوجائیں تو  اللہ عَزَّوَجَلَّ ان سبھوں کو منہ کے بل اَوندھا کرکے جہنَّم میں ڈال دے گا۔''       (سُنَنُ التِّرْمِذِیّ ج۳ ص۱۰۰حدیث ۱۴۰۳ دارالفکر بیروت )

آگ کی بَیڑیاں

    لوگوں کا مال ناحق دبالینے والوں، ڈکیتیاں کرنے والوں، چٹّھیاں بھیج کر رقموں کا مطالبہ کرنے والوں کو خوب غور کر لینا چاہئے کہ آج جو مالِ حرام بآسانی گلے سے نیچے اترتا ہوا محسوس ہورہا ہے وہ بروزِ قیامت کہیں سخت مصیبت میں نہ ڈالدے۔ سنو! سنو! حضرت سیِّدُنا فقیہ اَبُوالَّلیث سَمرقندی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی ''قُرَّۃُ الْعُیُوْن'' میں نقل کرتے ہیں :بے شک پُلْصراط (پُل۔صِراط)پر آگ کی بَیڑیاں ہیں،جس نے حرام کا ایک درہم بھی لیا اُس کے پاؤں میں آگ کی بَیڑیاں ڈالی جائیں گی،جس کے سبب اِسے پُلْصراط پرگزرنا دشوار ہو جائیگا ، یہاں تک کہ اُس درھم کا مالک اِس کی نیکیوں میں سے اِس کا بدلہ نہ لے لے اگر اِس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو وہ اُس کے گناہوں کا بوجھ بھی اُٹھائے گا اور جہنَّم میں گر پڑیگا۔

         (قُرَّۃُ العُیُون و معہ الروض الفائق ص۳۹۲ کوئٹہ)
("امیرِ اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے تحریر بیان ظلم کا انجام" سے نقل کیا گیا)
خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Tuesday 30 October 2012

قرآنِ مجید سنیئے اور دل کو روشن کجئیے Listen Quran Online


خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Dars No. 10 Halal حلال


درس نمبر 10

بچوں کو رزقِ حلال کھلائيے


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
    اپنے گھر والوں کو رزقِ حلال کھلانے کا التزام کیجئے کہ اس کی بڑی برکتیں اور فضائل ہیں ،چنانچہ حضرت سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم کے سامنے سے گزرا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس کی چستی دیکھ کر عرض کی :''یارسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم! کاش یہ شخص جہاد میں شریک ہوتا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا:'' اگر یہ اپنے چھوٹے بچوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے نکلا ہے تو بھی یہ اللہ عزوجل کی راہ میں ہے اور اگر اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کے لئے نکلا ہے تو بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے اور اگر اپنے آپ کو (ناجائز وشبہ والی چیز سے)بچانے کے نکلا ہے تو بھی اللہ عزوجل کی راہ میں ہے اور اگر یہ ریاکاری اور تفاخر کے لئے نکلا ہے تو پھر یہ شیطان کی راہ میں ہے۔''

 (المعجم الکبیر،الحدیث ۲۸۲،ج۱۹،ص۱۲۹ )

    امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نقل فرماتے ہیں :''جوشخص لگاتار حلال کی روزی کماتا ہے اور حرام کے لقمہ کی آمیزش نہیں ہونے دیتا ،اللہ عزوجل اس کے دل کو اپنے نور سے روشن کردیتا ہے اور حکمت کے چشمے اس کے دل سے جاری ہوجاتے ہیں۔''  (کیمیائے سعادت،باب اول ،فضیلت طلب حلال ،ج۱،ص۳۴۴)

     حضور اکرم،نورِ مجسم ،شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا:''جو شخص اس لئے حلال کمائی کرتا ہے کہ سوال کرنے سے بچے ، اہل وعیال کے لئے کچھ حاصل کرے اور پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمکتا ہو گا ۔ ''  (شعب الایمان ،باب فی الزہد وقصر الامل ،الحدیث ۱۰۳۷۵،ج۷،ص۲۹۸)

پیارے اسلامی بھائیو!
    تکمیل ِ ضروریات اور آسائشوں کے حصول کے لئے ہرگزہرگز حرام کمائی کے جال میں نہ پھنسیں کہ یہ آپ کے اور آپ کے گھر والوں کے لئے دنیا وآخرت میں عظیم خسارے کا باعث ہے جیسا کہ حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا :''وہ گوشت ہرگز جنت میں داخل نہ ہوگا جو حرام میں پلا بڑھا ہے ۔''

 (سنن الدارمی ،کتاب الرقاق،باب فی اکل السحت،الحدیث۲۷۷۶،ج۲،ص۴۰۹)

    حضرت سیدناعبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا :'' سود کا ایک درہم جو انسان (اس کا سود ہونا)جانتے ہوئے کھائے ،چھتیس بار زنا کرنے سے سخت تر ہے ۔''  (المسندللامام احمد بن حنبل حدیث عبد اللہ بن حنظلہ ،الحدیث۲۲۰۱۶،ج۸،ص۲۲۳)

تنگ دستی کی وجہ سے حرام کمانے والا:

        حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا :''لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دین دار کو اپنا دین بچانے کے لئے ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ اور ایک غار
سے دوسری غار کی طرف بھاگنا پڑے گا تو جب ایسا زمانہ آجائے تو روزی اللہ عزوجل کی ناراضگی ہی سے حاصل کی جائے گی پھر اس زمانہ میں آدمی اپنے بیوی بچوں کے ہاتھوں ہلاک ہوگا ،اگر اس کے بیوی بچے نہ ہوں تو وہ اپنے والدین کے ہاتھوں ہلاک ہوگا اگر اس کے والدین نہ ہوئے تو وہ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوگا ۔ ''صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کی:''یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم!وہ کیسے؟'' فرمایا:'' وہ اسے اس کی تنگ دستی پر عار دلائیں گے تو وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے کاموں میں مصروف کر دے گا ۔''  (الزھد الکبیر،الحدیث ۴۷۹،ص۱۸۳)

احتیاطِ نبوی:

    حضرت سيدنا ابو ہريرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے(جبکہ ابھی بچے ہی تھے) ايک مرتبہ صدقے کی کھجوروں ميں سے ايک کھجور اٹھا کر اپنے منہ ميں رکھ لی جب حضور اکرم،نورِ مجسم ،شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ديکھا تو فورا فرمايا ''کخ کخ''يعنی اس کو منہ سے نکال کر پھينک دو ،کيا تمہيں معلوم نہيں کہ ہم يعنی بنو ہاشم صدقے کا مال نہيں کھاتے ۔''

 (صحیح المسلم ،کتاب الزکوٰۃ،باب تحریم الزکوٰۃ علی رسول اللہ   ...الخ ،الحدیث ۱۰۶۹،ص۵۰۱)

بچوں کونیا پھل کھلائيے

    حضرتِ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب سرورِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بارگاہ میں پہلا پھل پیش کیا جاتا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلّم فرماتے :''یا الٰہی عزوجل ! ہمارے مدینہ ، ہمارے پھلوں اور ہمارے مد اور صاع میں برکت دربرکت عطا فرما ۔'' پھر وہ پھل وہاں موجود بچوں میں سے سب سے چھوٹے بچے کو دے دیتے ۔''

 (صحیح المسلم کتاب الحج ،باب فضل امدینۃ ودعاء النبی  فیھا باالبرکۃ الحدیث۳۷۳ا،ص۷۱۳)

    جب کوئی نیا پھل آئے تو اپنے بچوں کو کھلائيے کہ نئے کو نیا مناسب ہے ۔ پھل وغیرہ بانٹنے میں پہلے بیٹیوں کو دیجئے کہ ان کا دل بہت تھوڑا ہوتا ہے ۔حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا:''جو بازار سے اپنے بچوں کے لئے کوئی نئی چیز لائے تو وہ ان پر صدقہ کرنے والے کی طرح ہے اور اسے چاہيے کہ بیٹیوں سے ابتداء کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ بیٹیوں پر رحم فرماتا ہے اور جو شخص اپنی بیٹیوں پر رحمت وشفقت کرے وہ خوفِ خدا عزوجل میں رونے والے کی مثل ہے اور جو اپنی بیٹیوں کو خوش کرے اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت اسے خوش کریگا ۔''

 (فردوس الاخبار،باب المیم، الحدیث۵۸۳۰،ج۲،ص۲۶۳)

("کتاب تربیتِ اولاد" سے نقل کیا گیا)
خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Munaqqay Kay Fawaid منقے کے فوائد

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Monday 29 October 2012

Zia e Durood O Salam ضیائے درود و سلام

Zia e Durood o Salaam
خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Qayamat Tak Hajj قیامت تک حج

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Sunday 28 October 2012

Dars No.9 قَبْر میں آگ بھڑک اُٹھی / Qabr Men Aag Bharhak Utthi



درس نمبر 9

دُرُود شریف کی فضیلت

اللہ  عزَّوَجَلَّ کے مَحبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاارشادِ مُشکبار ہے:''جس نے مجھ پر سو100 مرتبہ دُرُودِپاک پڑھا اللہ تعالیٰ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دیتا ہے کہ یہ نِفاق اور جہنَّم کی آگ سے آزاد ہے اور اُسے بروزِ قیامت شُہَداء کے ساتھ رکھے گا۔''

     (مَجْمَعُ الزَّوَائِد، ج10ص253 حدیث 17298)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !                   صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

اگلے پچھلے گناہ معاف کروانے کا نُسخہ

    حضرتِ سیِّدُنا حُمرا ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وُضو کیلئے پانی منگوایا جب کہ آپ ایک سرد رات میں نماز کے لیے باہَر جانا چاہتے تھے میں ان کے لئے پانی لے کر حاضِر ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے۔ ( یہ دیکھ کر) میں نے عرض کی: '' اللہ عزَّوَجَلَّ آپ کو کفایت کرے رات تو بہت ٹھنڈی ہے۔'' تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' میں نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوفرماتے ہوئے سنا کہ'' جو بندہ کامل وضو کرتا ہے اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔''

    ( اَلتَّرْغِیب وَالتَّرْہِیب لِلْمُنذرِیّ ج 1 ص 93 حدیث 11)

گناہ جھڑنے کی حکایت

    اَلْحَمْدُ اللہ عزَّوَجَلَّ وُضو کرنے والے کے گناہ جھڑتے ہیں، اِس ضمن میں ایک ایمان افروز حکایت نقل کرتے ہوئےحضرتِ علامہ عبدالوہّاب شَعرانی قدِّس سرّہُ النّورانی فرماتے ہیں :ایک مرتبہ سیِّدُناامامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جامِع مسجِد کوفہ کے وُضو خانہ میں تشریف لے گئے توایک نوجوان کو وُضوبناتے ہوئے دیکھا ،اس سے وضو(میں استعمال شدہ پانی )کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ آ پ ر ضی اللہ تعالیٰ عنه نے ارشاد فرمایا :اے بیٹے! ماں باپ کی نافرمانی سے توبہ کرلے۔اُس نے فوراً عرض کی:'' میں نے توبہ کی۔''ایک اورشخص کے وُضو(میں اِستِعمال ہونے والے پانی )کے قطرے ٹپکتے دیکھے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اُس شخص سے ارشادفرمایا :''اے میرے بھائی! توزِنا سے توبہ کرلے۔'' اس نے عرض کی: ''میں نے توبہ کی۔''ایک اورشخص کے وُضوکے قَطرات ٹپکتے دیکھے تواسے فرمایا:''شراب نوشی اور گانے باجے سُننے سے توبہ کر لے ۔'' اس نے عرض کی: ''میں نے توبہ کی۔''سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرکَشف کے باعِث چُونکہ لوگوں کے عُیُوب ظاہِر ہوجاتے تھے لہٰذا آ پ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اِس کشف کے خَتم ہوجانے کی دُعامانگی : اللہ  عزَّوَجَلَّ نے دُعاقبول فرمالی جس سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وُضو کرنے والوں کے گناہ جھڑتے نظر آنا بند ہوگئے ۔

  ( المیزان الکبریٰ ج1 ص130)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !                   صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

قَبْر میں آگ بھڑک اُٹھی

    حضرتِ سیِّدُنا عَمرو بن شُرَحْبِیْل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص انتِقال کر گیا جس کو لوگ مُتَّقِی اورپرہیزگار سمجھتے تھے ۔جب اُسے قَبْرمیں دفن کیا گیا تو فِرشتوں نے فرمایا:'' ہم تجھ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے 100 کوڑے ماریں گے۔ اس نے پوچھا : ''کیوں مارو گے؟ میں تو تقویٰ وپرہیز گاری کو اِختیارکئے ہوئے تھا۔''توفِرِشتوں نے فرمایا:'' چلو پچاس کوڑے ہی ماردیں گے۔'' اس پر وہ شخص برابر بحث کرتا رہا یہاں تک کہ وہ فرشتے ایک کوڑے پر آگئے اور انہوں نے عذاب ِالٰہی کا ایک کوڑا مارا جس سے تمام قَبْر میں آگ بھڑک اُٹھی!تو اُس نے پوچھا کہ تم نے مجھے کوڑا کیوں مارا ؟فِرِشتوں نے جواب دیا:'' تُو نے ایک دن جان بوجھ کربے وُضو نَماز پڑھی تھی۔ اور ایک مرتبہ ایک مظلوم تیرے پاس فریاد لے کر آیا مگر تو نے اس کی مدد نہ کی۔''

 (شرح الصّدورص165،حِلیۃُ الاولیاء ج4ص157رقم 5101)

     اسلامی بہنو!بے وُضو نَماز پڑھنا سخت جُرأَت (جُر۔ءَ۔ت)کی بات ہے۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام یہاں تک فرماتے ہیں: بِلاعُذرجان بوجھ کر جائز سمجھ کر یا اِستِہزاء ً(اِسْ۔تِہ۔زاء ً۔یعنی مذاق اڑاتے ہوئے) بِغیروُضو کے نَماز پڑھنا کُفرہے۔

   (منح الروض الازھر للقاری ص468)


("کتاب اسلامی بہنوں کی نماز" سے نقل کیا گیا)
خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Sanp Numa Jinn سانپ نما جن

سانپ نما جن

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Eid Mubarak 3

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Eid Mubarak 2

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Eid Mubarak 1

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Kanta Chubha Magar کانٹا چبھا مگر

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے

Saturday 27 October 2012

Dars NO.8 غم گسار بیوی Ghamgusar Bivi



درس نمبر 8

(۱) ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

نسب شریف

    سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنتِ خویلد بن اسدبن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی۔ آپ کا نسب حضور پر نور شافعِ یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نسب شریف سے قصی میں مل جاتا ہے۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت ام ہند ہے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن العصم قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھیں۔

(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی، ج۲،ص۴۶۴)

اللہ تعالیٰ کا سلام

    صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں جبرائیل علیہ السلام نے حاضرہوکرعرض کیا: اے اللہ عزوجل کے رسول! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دستر خوان لارہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں ان سے ان کے رب کا سلام فرمانا۔

(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھا،الحدیث۲۴۳۲،ص۱۳۲۲)

افضل ترین جنتی عورتیں

    مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،سیدہ فاطمہ بنت محمدرضی اللہ تعالیٰ عنہاو صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ،حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ تعالیٰ عنہا امراه  فرعون ہیں۔

(المسندللامام احمدبن حنبل،مسند عبداللہ بن عباس،الحدیث۲۹۰۳،ج۱،ص ۶۷۸)

سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تجارت میں دو نانفع

    سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ کا ہر جگہ چرچا تھا حتی کہ مشرکین مکہ بھی انہیں الامین والصادق سے یاد کرتے، سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے کاروبار کے لئے یکتائے روزگار کو منتخب فرمایا اور سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں پیغام پہنچایا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مال ِ تجارت لے کر شام جائیں اور منافع میں جو مناسب خیال فرمائیں لے لیں۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس پیشکش کو بمشورۂ ابوطالب قبول فرمالیا۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے غلام میسرہ کو بغرض خدمت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ کردیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنا مال بصرہ میں فروخت کرکے دونا نفع حاصل کیا نیز قافلے والوں کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی صحبت بابرکت سے بہت نفع ہوا جب قافلہ واپس ہوا تو سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دیکھا کہ دو فرشتے رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم پر سایہ کنا ں ہیں نیزدوران سفر کے خوارق نے سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ کاگرویدہ کردیا۔

(مدارج النبوت،قسم دوم،باب دوم درکفالت عبدالمطلب ...الخ،ج۲،ص۲۷)

سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح

    سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مالدار ہونے کے علاوہ فراخ دل اور قریش کی عورتوں میں اشرف وانسب تھیں۔ بکثرت قریشی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے نکاح کے خواہشمند تھے لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا بلکہ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے سرکار ابدقرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا اور اپنے چچا عمرو بن اسد کو بلایا۔ سردار دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بھی اپنے چچا ابوطالب، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر رؤساء کے ساتھ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر تشریف لائے۔ جناب ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ سونا تھا۔

(مدارج النبوت،قسم دوم،باب دوم درکفالت عبدالمطلب ...الخ،ج۲،ص۲۷)

    بوقتِ نکاح سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،تسمیۃ النساء...الخ،ذکرخدیجہ بنت خولید،ج۸،ص ۱۳)

    جب تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاحیات رہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی موجودگی میں پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا۔

(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھا،الحدیث ۲۴۳۵،ص۱۳۲۴)

غم گسار بیوی

    غارِ حرا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہِ رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میں وحی لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا پڑھئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: کہ ''ما انا بقارئ'' میں نہیں پڑھتااس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے اپنی آغوش میں لے کر بھینچاپھرچھوڑ کر دوبارہ کہا: پڑھئے، میں نے کہا: میں نہیں پڑھتا، جبرائیل علیہ السلام نے پھر آغوش میں لے کر بھینچا پھر چھوڑ کر کہا پڑھئے میں نے کہا میں نہیں پڑھتا۔ تیسری مرتبہ پھر جبرائیل علیہ السلام نے آغوش میں لے کربھینچاپھرچھوڑکر کہا:

اِقْرَاۡ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾خَلَقَ الْاِنۡسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾اِقْرَاۡ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۙ﴿۳﴾الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۙ﴿۴﴾عَلَّمَ الْاِنۡسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ؕ﴿۵

ترجمۂ کنزالایمان : پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم جس نے قلم سے لکھنا سکھایا آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔(پ30،العلق:1تا5)

اس پر مژدہ واقعہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی طبیعت بے حد متأثِر ہوئی گھر واپسی پر سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: ''زملونی زملونی''مجھے کمبل اڑھاؤ مجھے کمبل اڑھاؤ۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے جسم انور پر کمبل ڈالا اور چہرہ انور پر سرد پانی کے چھینٹے دیئے تاکہ خشیت کی کیفیت دور ہو۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سارا حال بیان فرمایا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ اچھا ہی فرمائے گاکیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم صلۂ رحمی فرماتے، عیال کا بوجھ اٹھاتے، ریاضت و مجاہدہ کرتے، مہمان نوازی فرماتے، بیکسوں اور مجبوروں کی دستگیری کرتے، محتاجوں اور غریبوں کے ساتھ بھلائی کرتے لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے، لوگوں کی سچائی میں انکی مدد اور ان کی برائی سے حذر فرماتے ہیں، یتیموں کو پناہ دیتے ہیں سچ بولتے ہیں اور امانتیں ادا فرماتے ہیں۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ان باتوں سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو تسلی و اطمینان دلایا کفار قریش کی تکذیب سے رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم جو غم اٹھاتے تھے وہ سب سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیکھتے ہی جاتا رہتا تھا او رآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم خوش ہوجاتے تھے اور جب سرکار ابدقرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تشریف لاتے تو وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خاطر مدارات فرماتیں جس سے ہر مشکل آسان ہوجاتی۔

( مدارج النبوت،قسم دوم،باب سوم دربدووحی وثبوت نبوت ...الخ،ج۲،ص۳۲ وقسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی، ج۲،ص۴۶۵)

سابق الایمان

    مذہب جمہور پر سب سے پہلے علی الاعلان ایمان لانے والی حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ کیونکہ جب سرور دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم غارحرا سے تشریف لائے اور ان کو نزول وحی کی خبر دی تو وہ ایمان لائیں۔ بعض کہتے ہیں ان کے بعد سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے بعض کہتے ہیں سب سے پہلے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف دس سال کی تھی۔ شیخ ابن الصلاح فرماتے ہیں۔ کہ سب سے زیادہ محتاط اور موزوں تر یہ ہے کہ آزاد مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچوں اور نو عمروں میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عورتوں میں سیدتنا خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور موالی میں زيد بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور غلاموں میں سے حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے۔

(مدارج النبوت،قسم دوم،باب سوم دربدووحی وثبوت نبوت ...الخ،ج۲،ص۳۷)

سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فراخدلی

   حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: اللہ کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولادعطافرمائی۔

 (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،حضرت خدیجۃام المؤمنین رضی اللہ عنہا،ج۴،ص۳۶۳۔الاستیعاب،کتاب النساء:۳۳۴۷،خدیجۃ بنت خویلد،ج۴، ص۳۷۹)

    حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب کہ لوگ میری تکذیب کرتے تھے اور انہوں نے اپنے مال سے میری ایسے وقت مدد کی جب کہ لوگوں نے مجھے محروم کررکھا تھا۔

 (المسندللامام احمد بن حنبل،مسند السیدۃعائشۃ،الحدیث۲۴۹۱۸،ج۹،ص۴۲۹)

اولادِ کرام

    حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے ہوئی۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیدا ہوئے۔ فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں جب کہ دختران میں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہیں۔

 (السیرۃالنبویۃلابن ہشام،حدیث تزویج رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم خدیجۃ، اولادہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم من خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،ص۷۷۔اسدالغابۃ،کتاب النساء،خدیجۃ بنت خولید،ج۷،ص۹۱)
وصال

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تقریباً پچیس سال حضور پرنور شافع یو م النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی شریک حیات رہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا وصال بعثت کے دسویں سال ماہ ِ رمضان میں ہوا۔ اور مقبرہ حجون میں مدفون ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی ۔ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی۔ اس سانحہ پر رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بہت زیادہ ملول و محزون ہوئے۔

 (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۶۵)

ذکر خير

   ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیاں تھیں۔

 (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا،الحدیث ۲۴۳۵،ص۱۳۲۳)


("کتاب امھات المؤمنین" سے نقل کیا گیا)
خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے