Blog Archive

Thursday 11 October 2012

تخلیق آدم علیہ السلام

   تخلیق آدم علیہ السلام

    حضرت آد م علیہ السلام کی نہ ماں ہیں نہ باپ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹی سے بنایا ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ جب خداوند قدوس عزوجل نے آپ کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت عزرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ زمین سے ایک مٹھی مٹی لائیں۔ حکمِ خداوندی عزوجل کے مطابق حضرت عزرائیل علیہ السلام نے آسمان سے اتر کر زمین سے ایک مٹھی مٹی اٹھائی تو پوری روئے زمین کی اوپری پرت چھلکے کے مانند اتر کر آپ کی مٹھی میں آگئی۔ جس میں ساٹھ رنگوں اور مختلف کیفیتوں والی مٹیاں تھیں یعنی سفید و سیاہ اور سرخ و زرد رنگوں والی اور نرم و سخت، شیریں و تلخ، نمکین و پھیکی وغیرہ کیفیتوں والی مٹیاں شامل تھی ۔
 (تذکرۃ الانبیاء، ص ۴۸)

پھر اس مٹی کو مختلف پانیوں سے گوندھنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ ایک مدت کے بعد یہ چپکنے والی بن گئی۔ پھر ایک مدت تک یہ گوندھی گئی تو کیچڑ کی طرح بو دار گارا بن گئی۔ پھر یہ خشک ہو کر کھنکھناتی اور بجتی ہوئی مٹی بن گئی۔ پھر اس مٹی سے حضرت آدم علیہ السلام کا پُتلا بنا کر جنت کے دروازے پر رکھ دیا گیا جس کو دیکھ دیکھ کر فرشتوں کی جماعت تعجب کرتی تھی۔ کیونکہ فرشتوں نے ایسی شکل و صورت کی کوئی مخلوق کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پتلے میں روح کو داخل ہونے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ روح داخل ہو کر جب آپ کے نتھنوں میں پہنچی تو آپ کو چھینک آئی اور جب روح زبان تک پہنچ گئی، تو آپ نے ''الحمدللہ'' پڑھا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''یرحمک اللہ''یعنی اللہ تعالیٰ تم پر رحمت فرمائے۔ اے ابو محمد (آدم)میں نے تم کواپنی حمد ہی کے لئے بنایا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ پورے بدن میں روح پہنچ گئی اور آپ زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

 (تفسیر خازن،ج۱، ص ۴۳،پ۱، البقرۃ :۳۰)

ترمذی اور ابو داؤد میں یہ حدیث ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا جس مٹی سے بنایا گیا چونکہ وہ مختلف رنگوں اور مختلف کیفیتوں کی مٹیوں کا مجموعہ تھی اسی لئے آپ کی اولاد یعنی انسانوں میں مختلف رنگوں اور قسم قسم کے مزاجوں والے لوگ ہوگئے۔

              (تفسیر صاوی،ج۱،ص ۴۹،پ۱،البقرۃ :۳۰)

حضرت آدم علیہ السلام کی کنیت ابو محمد یا ابو البشر اور آپ کا لقب ''خلیفۃ اللہ''ہے اور آپ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔ آپ نے نو سو ساٹھ برس کی عمر پائی اور بوقت وفات آپ کی اولاد کی تعداد ایک لاکھ ہوچکی تھی۔ جنہوں نے طرح طرح کی صنعتوں اور عمارتوں سے زمین کو آباد کیا۔

 (تفسیر صاوی،ج۱،ص ۴۸،پ۱،البقرۃ :۳۰)

قرآن مجید میں بار بار اس مضمون کا بیان کیا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی۔ چنانچہ سورئہ آل عمران میں ارشاد فرمایا کہ:۔

اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿59﴾
                (پ3،اٰل عمران: 59)

ترجمہ کنزالایمان :۔ عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہو جا وہ فوراً ہوجاتا ہے۔
دوسری آیت میں اس طرح فرمایا کہ:۔

اِنَّا خَلَقْنٰہُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ لَّازِبٍ  (پ23،الصّافات: 11)

ترجمہ کنزالایمان:۔بیشک ہم نے ان کو چپکتی مٹی سے بنایا۔
کہیں یہ فرمایا کہ:۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوۡنٍ ﴿ۚ26﴾
                (پ14،الحجر:26)

ترجمہ کنزالایمان:۔ اور بیشک ہم نے آدمی کو بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بودار گارا تھی۔
حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا:۔جب حضرت آدم علیہ السلام کو خداوند ِ قدوس نے بہشت میں رہنے کا حکم دیا تو آپ جنت میں تنہائی کی وجہ سے کچھ ملول ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نیند کا غلبہ فرمایا اور آپ گہری نیند سو گئے تو نیند ہی کی حالت میں آپ کی بائیں پسلی سے اللہ تعالیٰ نے حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پیدا فرمادیا۔
جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور حسین و جمیل عورت آپ کے پاس بیٹھی ہوئی ہے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ تم کون ہو؟ اور کس لئے یہاں آئی ہو؟ تو حضرت حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ میں آپ کی بیوی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے پیدا فرمایا ہے تاکہ آپ کو مجھ سے اُنس اور سکون قلب حاصل ہو۔ اور مجھے آپ سے اُنسیت اور تسکین ملے اور ہم دونوں ایک دوسرے سے مل کر خوش رہیں اور پیار و محبت کے ساتھ زندگی بسر کریں اور خداوند ِ قدوس عزوجل کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں۔  (تفسیر روح المعانی، ج۱، ص ۳۱۶،پ۱، البقرۃ :۳۵)