اُستاذ کے آداب
(اُستاد کوچاہے کہ) دل میں خوف وخشیت پیدا کرے، بات کو خاموشی اور توجہ سے سنے اور سمجھے، رحمت کا منتظر رہے، متشابہ حروف، وقف کے اشارے، ابتداء کی پہچان،ہمزہ کا بیان، تعدادِ اسباق، حروفِ تجوید اور خاتمۂ کتاب کا فائدہ وغیرہ کی طرف خوب دھیان دے۔ ابتداء میں شاگرد پر نرمی کرے،جب طالبِ علم غیر حاضر ہو تو اس کے بارے میں معلومات کرے اور جب حاضرہو تو اسے تعلیم حاصل کرنے پر برانگیختہ کرے (یعنی اِس کی ترغیب دلائے)، گپ شپ سے اجتناب کرے اور اپنے لئے دعا کرنے سے پہلے شاگرد کے لئے دعا کرے جب تک کہ وہ کسی دوسرے استاذ کے پاس نہ چلا جائے۔
طالب ِ علم کے آداب
(شاگردکوچاہے کہ)اُستاذ صاحب کے سامنے دل میں عاجزی پیدا کرے اور پوری توجہ کے ساتھ ،سر جھکا کر بیٹھے۔پڑھنے سے پہلے اجازت طلب کرے، پھر تعوذ و تسمیّہ (یعنی اَعُوْذُ بِاللہ اور بِسْمِ اللہ شریف) پڑھے اور جب پڑھائی سے فارغ ہو تو دُعا کرے۔
بچوں کو پڑھانے والے کے آداب
(بچوں کوپڑھانے والا)پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرے کیونکہ بچوں کی نظریں اسے دیکھتی ہیں اوران کے کان اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پس جو اس کے نزدیک اچھاہوگاوہ ان کے نزدیک بھی اچھاہوگااورجواس کے نزدیک برا ہوگا وہ ان کے نزدیک بھی براہوگا، کلاس میں خاموشی اختیار کرے، آنکھوں میں غضب وجلال کو لازم پکڑے،اپنے رعب و ہیبت کے ذریعے بچوں کو ادب سکھائے، مارنے اور ایذارسانی میں زیادتی نہ کرے، ان سے زیادہ ہنسی مذاق بھی نہ کرے کہ وہ استاذ پر جرأت کرنے لگیں ،نہ انہیں آپس میں زیادہ گفتگو کرنے دے کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ اس کے سامنے بے تکلف ہو جائیں، اور نہ ہی بچوں کے سامنے کسی سے ہنسی مذاق کرے ،بچے اسے کچھ دیں تو اس سے بچنے کی کوشش کرے، اپنے سامنے موجود مشتبہ چیزوں سے احتراز کرے کہیں ایسانہ ہوکہ بچے اس سے دور ہو جائیں، انہیں لڑائی جھگڑے سے منع کرے اور دوسروں کی تفتیش(یعنی ان کی ٹوہ میں پڑنے) سے روکے، ان کے سامنے غیبت،جھوٹ اور چغلی کی مذمت اور برائی بیان کرے، بچوں سے ایسے کام کی بار بار پوچھ گچھ نہ کرے جس کے وہ عادی ہوں کہ کہیں وہ اس کو بوجھ تصور نہ کرنے لگ جائیں، ان کے والدین سے نہ مانگتا پھرے ایسا نہ ہو کہ وہ اس سے اُکتا جائیں، انہیں نماز و طہارت(یعنی پاکی حاصل کرنے) کے مسائل سکھائے اور ان چیزوں کی پہچان کروائے جن سے انہیں نجاست لاحق ہوتی(یعنی پلیدی پہنچتی) ہے۔