Blog Archive

Monday, 22 October 2012

Dars NO-4 Bazar ki Roti بازار کی روٹی


درس نمبر 4

بازار کی روٹی

حضرتِ سیِّدُنا امام بُرہانُ الدّین ابراھیم زَر نُوجی علیہ رحمۃ القوی فرماتے ہیں، امامِ جلیل حضرتِ سیِّدُنا محمد بن فَضل رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے دَورانِ تعلیم کبھی بھی بازار سے کھانا نہیں کھایا ان کے والِد صاحِب ہر جُمُعہ کو اپنے گاؤں سے ان کیلئے کھانا لے آتے تھے ۔ ایک مرتبہ جب وہ کھانادینے آئے تو ان کے کمرے میں بازار کی روٹی رکھی دیکھ کرسَخت ناراض ہوئے اور اپنے بیٹے سے بات تک نہیں کی۔ صاحِبزادے نے معذِرت کرتے ہوئے عَرض کی،ابّا جان! یہ روٹی بازار سے میں نہیں لایا میر ارفیق میری رِضا مندی کے بِغیر خرید کر لایا تھا ۔ والِد صاحِب نے یہ سُن کر ڈانٹتے ہوئے فرمایا، اگر تمہارے اندر تقویٰ ہوتا تو تمہارے دوست کو کبھی بھی یہ جُرّأت نہ ہوتی ۔

        ( تَعْلِیْمُ الْمُتَعَلِّمِ طَرِیْقُ التَّعَلُّمِ ص۶۷ بابُ المدینہ کراچی)

بازاری کھانا بے برکت ہوتا ہے

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ! ہمار ے بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبین تقوے کا کس قَدَر خیال رکھتے تھے اور اپنی اولا د کی کیسی زبردست تربیّت فرماتے تھے کہ ہوٹل کی اور بازاری غِذائیں انہیں نہیں کھانے دیتے تھے ۔ حضرتِ امام زَر نُوجی علیہ رحمۃ القَوی فرماتے ہیں،''اگر ممکِن ہو توغیرمُفید اور بازاری کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ بازاری کھانا انسان کو خِیانت و گندَگی کے قریب اور ذِکرِ خُداوندی عَزَّوَجَلَّ سے دُور کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بازار کے کھانوں پر غُرَبا ء اور فُقَراء کی نظریں بھی پڑتی ہیں اور وہ اپنی غُربت و اِفلاس کی بِنا پر جب اس کھانے کو نہیں خرید سکتے تو دل برداشتہ ہو جاتے ہیں اور یوں اس کھانے سے بَرَکت اُٹھ جاتی ہے۔''

(ایضاً ص ۸۸)

ہوٹل میں کھانا کیسا؟

بازاروں میں ٹھیلوں اور بستوں وغیرہ پر طرح طرح کی چَٹپَٹی غذاؤں کے چٹخارے لینے والے اس سے درسِ عبرت حاصِل کریں۔ جب بازار میں کھانا بُرا ہے تو فِلمی گیتوں کی دُھنوں میں ہو ٹلوں کے اندر وَقت بے وَقت کھانا،چائے کی چُسکیاں لینااور ٹھنڈے مشروبات پیناکس قَدَر مَعیوب ہوگا! اگر گانے نہ بھی بج رہے ہوں تب بھی ہوٹلوں کا ماحول اکثرغفلتوں بھرا ہو تا ہے، ان میں جا کر بیٹھنا شُرَفاء اور باشرع حضرات کے شایانِ شان نہیں ۔ لہٰذا ضَرورت ہو تب بھی خرید کر کسی محفوظ جگہ پر کھانے پینے ہی میں بھلائی ہے۔ ہاں جومجبورہے وہ معذور ہے۔مگر جب ہوٹل میں فلمیں ڈرامے یا گانے باجے کا سلسلہ ہو تو وہاں نہ جائے کہ جان بوجھ کر مُوسیقی کی آواز سننا گناہ ہے۔ چُنانچِہ

موسیقی کی آواز سے بچنا واجب

حضرتِ سیِّدُنا علامہ شامی رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ، '' (لچکے توڑے کے ساتھ) ناچنا ، مذاق اُڑانا، تالی بجانا ، سِتار کے تار بجانا، بَربَط، سارنگی ، رَباب، بانسری ، قانون (ایک ساز کا نام) ،جھانجھن، بِگل بجانا ، مکروہِ تحریمی( یعنی قریب بحرام)ہے
کیونکہ یہ سب کُفّار کے شَعار ہیں، نیز بانسری اور(موسیقی کے) دیگر سازوں کا سننا بھی حرام ہے اگر اچانک سُن لیا تو معذور ہے اور اس پر واجِب ہے کہ نہ سننے کی پوری کوشِش کرے''۔

                 (رَدُّالْمُحْتَار ج۹ص۵۶۶)

کانوں میں انگلیاں ڈالنا

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !خوش نصیب ہیں وہ مسلما ن جو کلامِ ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّ ،نعتِ شاہِ موجودات صَلّی  اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم اور سنّتوں بھرے بیانات تو سنتے ہیں مگر فلمی گانوں اور موسیقی کی آواز آنے پر بہ سبب خوفِ خداوندی نہ سننے کی پوری کوشش کرتے ہوئے کانوں میں اُنگلیاں داخِل کرکے وہاں سے فوراً دُور ہٹ جاتے ہیں ۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا نافِع رضی اﷲتعالیٰ عنہ فرماتے ہیں،میں بچپن میں حضرتِ سیِّدُنا عبداﷲ ابنِ عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہماکے ساتھ کہیں جارہا تھا کہ راستے میں مِزْمار (یعنی باجہ)بجانے کی آواز آنے لگی،ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اپنے کانوں میں اُنگلیاں ڈال دیں اورراستے سے دوسری طرف ہٹ گئے اور دُورجانے کے بعد پوچھا، نافِع ! آواز آرہی ہے ؟میں نے عرض کی ،اب نہیں آرہی۔ تو کانوں سے انگلیاں نکالیں اورارشاد فرمایا، ''ایک بار میں سرکارِ مدینہ منوَّرہ ، سردارِ مکَّہ مکرَّمہ صَلّی  اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم کے ساتھ کہیں جارہا تھا ، سرکارصَلّی  اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَ سَلَّم نے اسی طرح کیا جو میں نے کیا۔''

(ابوداوٗد ج۴ص ۳۰۷الحدیث ۴۹۲۴ )

خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے