Blog Archive

Saturday, 3 November 2012

Dars no. 14 Sharif Ke Sath Sharif شریف کے ساتھ شریف



درس نمبر14

مسلمان کو گھورنا،ڈرانا

    سرکارِمدینہ منوّرہ،سردارِمکّہ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ دو سرے مسلمان کی طرف آنکھ سے اِس طرح اشارہ کرے جس سے تکلیف پہنچے۔ (اِتحافُ السّادَۃ للزّبیدی ج۷ ص۱۷۷) ایک مقام پر ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوفزدہ کرے۔ (سُنَنُ اَ بِی داو،د ج۴ ص۳۹۱حدیث۵۰۰۴داراحیاء التراث العربی بیروت)

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا کہ مسلمان دوسرے مسلمان کا مُحافِظ اور غمخوار ہوتا ہے،آپس میں لڑنا جھگڑنا یہ مسلمان کا شَیوہ نہیں بلکہ اس سے بَہُت بڑے بڑے نقصانات ہوجاتے ہیں جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا شیخ محمد بن اسمٰعیل بخاری علیہ ر حمۃ الباری اپنے مجموعہ احادیث اَلموسُوم ''صحِیح بُخارِی'' میں نَقل کرتے ہیں:حضرت سیِّدُنا عُبادہ بن صامِت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:مکّی مَدَنی آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باہَر تشریف لائے تاکہ ہمیں شبِ قَدر بتائیں کہ کس رات میں ہے، دو مسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے، سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں اِس لئے آیا تھا کہ تمہیں شبِ قَدر بتاؤں مگرفُلاں فُلاں شخص جھگڑ رہے تھے اِس لئے اس کا تَعَیُّن اُٹھا لیا گیا۔

             (صَحِیحُ البُخارِیّ ج۱ ص۶۶۲ حدیث ۲۰۲۳ )

ہم شریف کے ساتھ شریف اور ......

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حدیثِ مبارَکہ میں ہمارے لئے زبردست درسِ عبرت ہے کہ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شبِ قدر کی نشاندہی فرمانے ہی والے تھے کہ دو مسلمانوں کا باہم لڑنا مانِع(یعنی رُکاوٹ) ہوگیا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شبِ قدر کو مخفی(یعنی پوشیدہ) کردیا گیا۔ اِس سے اندازہ کیجئے کہ آپس کا جھگڑا کس قَدَر نقصان دِہ ہے۔ مگر آہ!جھگڑا لومزاج کے لوگوں کو کون سمجھائے؟ آج کل توبعض مسلمان بڑے فخر سے یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ''میاں اِس دنیا میں شریف رَہ کر گزارہ ہی نہیں، ہم تو شریفوں کے ساتھ شریف اور بدمَعاشوں کے ساتھ بدمَعاش ہیں!'' اورصِرف کہنے پر بھی اِکتِفا تھوڑے ہی ہے!بسا اوقات تو معمولی سی بات پر پہلے زَبان درازی ، پھر دست اندازی،پھر چاقوبازی بلکہ گولیاں تک چل جاتی ہیں۔صدکروڑ افسوس ! آج کے بعض مسلمان باوُجُود مسلمان ہونے کے کبھی پٹھان بن کر، کبھی پنجابی کہلا کر ،کبھی سرائیکی بن کر،کبھی مُہاجِر ہوکر، کبھی سِندھی اور بلوچ قومیَّت کا نعرہ لگا کر ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں،دکانوں اور گاڑیوں کو آگ لگا رہے ہیں، مسلمانو! آپ تو ایک دوسرے کے محافِظ تھے،آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ ہمارے پیارے آقا رحمتوں والے مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان تویہ ہے کہ ''باہَم مَحَبَّت و رَحم و نرمی میں مومِنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر ایک عُضْوْ کو تکلیف پہنچے تو سارا
جسم اس تکلیف کو محسوس کرتاہے۔'' (صَحِیح مُسلِم ص۱۳۹۶ حدیث ۲۵۸۶)

ایک شاعر نے کتنے پیارے انداز میں سمجھایا ہے۔ ؎

مُبتَلائے درد کوئی عُضْوْ ہو روتی ہے آنکھ
کس قَدَر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

جو برائی کرے اُس پر بھی ظُلم نہ کرو

    ترمذی شریف'' کی روایت میں ہے کہ سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب وسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان باقرینہ ہے:''تم لوگ نَقّال نہ بنو کہ کہو اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر لوگ ظلم کریں گے توہم بھی ظلم کریں گے، لیکن اپنے نفس کو قرار دوکہ لوگ بھلائی کریں تو تم بھی بھلائی کرو اور لوگ بُرائی کریں توتم ظلم نہ کرو۔

 (سُنَنُ التِّرْمِذِی ج۳ ص۴۰۵ حدیث ۲۰۱۴)
پرائی قلم لوٹانے کے لئے سفر

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ہمیں مسلمانوں کی ہمدردی کرنے کے تعلُّق سے کتنے پیارے مَدَنی پھول عنایت فرمائے ہیں۔ ہمارے بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المبین دوسروں کے حُقُوق کے مُعاملے میں انتِہائی دَرَجے حَسّاس ہوتے تھے اور ادائگي حق کے معاملے میں حیرت انگیز حد تک مُحتاط بھی۔ چُنانچِہحضرتِ سیِّدُنا عبد اﷲ بن مبارَک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مُلکِ شام میں چند روز کیلئے مُقیم ہوئے، وہاں احادیثِ مبارَکہ لکھتے رہے۔ایک بار ان کا قلم ٹوٹ گیا لہٰذا عارِیتاً (یعنی وقتی طور پر ) کسی اور سے قلم حاصِل کیا، واپَسی پربُھولے سے وہ قلم وطن ساتھ لیتے آئے ۔ جب یاد آیا توصِرف قلم واپَس دینے کیلئے آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہنے اپنے وطن سے ملکِ شام کا سفر کیا۔

        (تذکرۃُ الواعِظین ص۲۴۳ کوئٹہ)
بِغیر اِجازت کسی کی چَپّل پہننا کیسا؟

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے!سبحٰنَ اللہ! ہمارے اَسلاف رحمہم اﷲتعالیٰ پَرائی چیز کے مُعامَلے میں اللہ تعالیٰ سے کس قَدَر ڈرتے تھے! مگرافسوس! اب ہم اس سلسلے میں بالکل بے خوف ہوتے جارہے ہیں ! یادرکھئے ! ابھی تو دوسروں کی چیزیں جان بوجھ کر رکھ لینا بَہُت آسان معلوم ہوتاہے مگر قِیامت میں صاحِبِ حق کو اِس کا بدلہ چکانا اور اس کو راضی کرنا بَہُت ہی مشکل ہوجائے گا لہٰذادوسروں کے ایک ایک دانے اور ایک ایک تنکے کے بارے میں احتیاط کرنی چائیے،بِغیر اجازت کسی کی کوئی چیزمَثَلاً چادر، تولیہ،برتن، چارپائی ، کرسی وغیرہ وغیرہ ہر گز استعمال نہیں کرنی چاہئے ہاں اگر ان چیزوں کے مالک کی طرف سے اِذنِ عام ہو تو استعمال کرنے میں حَرَج نہیں۔مَثَلاًکسی کے گھرمہمان بن کر گئے توعُمُوماً اِس طرح کی چیزوں کے استعمال کی صاحِبِ خانہ کی طرف سے چھوٹ ہوتی ہے۔ اکثر دیکھا جاتاہے کہ مسجِد میں بعض لوگ بِغیر اجازتِ مالک اُس کی چپّلیں پہن کر اِستِنجاء خانے چلے جاتے ہیں۔ بظاہِر یہ عمل بَہُت ہی معمولی لگ رہا ہے مگر ذرا سوچئے تو سہی!آپ کسی کی چپّلیں پہن کر استِنجاء خانے تشریف لے گئے اوراس کا مالِک باہَر جانے کیلئے اپنی چَپّلوں کی طرف آيا، غائب پاکر یہ سمجھ کر کہ چوری ہوگئیں بےچارہ دل مَسُوس کر رہ گیا اور ننگے پاؤں ہی چلا گیا۔آپ نے اگر چِہ واپس آکر چَپلیں جہاں سے لی تھیں وہیں رکھ دیں مگر اُس کا مالِک تو انہیں ضائِع کرچکا ۔اس کا وبال کس پر ؟یقینا آپ پر اور آپ ہی ظالِم ٹھہرے ۔ آہ!بروزِ قیامت ظالم کی حسرت!حضرتِ سیِّدُنا شيخ عبدُالوَہّاب شَعرانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی فرماتے ہیں: ''بسا اوقات ایک ہی ظلم کے بدلے ظالم کی تمام نیکیاں لے کر بھی مظلوم خوش نہ ہوگا۔''

(تَنبِیْہُ الْمُغتَرِّیْن ص۵۰)

("امیرِ اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے تحریری بیان ظلم کا انجام" سے نقل کیا گیا)
خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے