درس نمبر16
حیاتِ اَولیاء:
حضرتِ سیدنا ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری نے ارشاد فرمایا : اَولیاء
کرام رضی اللہ عنھم کی دونوں حالتوں یعنی حیات و ممات میں اصلاً فرق نہیں ، اسی
لئے کہا گیا ہے! کہ وہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔
(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الصلوٰۃ،باب الجمعۃ،الحدیث،۱۳۶۶، ج ۴۵۹۳،دارالفکر بیروت)
مقامِ غور:
جب صحابہ و اولیائے کرام علیھم الرضوان کا یہ مرتبہ ہے، توحضرات انبیاء علیھم
الصلوٰۃ السلام کی کیا شان ہوگی۔ پھر حضور سید الانبیاء شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلمکے جسم اطہر کا کیا کہنا ، یقینًا وہ اپنی قبر منور میں
جسمانی حیات مقدسہ کے ساتھ زندہ ہیں۔حدیث مبارکہ ہے:''بے شک اللہ تعالیٰ نے انبیاء
کرام (علیھم السلام) کے جسموں کو زمین پر کھانا حرام فرمادیاہے ۔اللہ عزوجل کے نبی
علیہ السلام زندہ ہیں اور ان کو روزی بھی دی جاتی ہے۔''
(سنن ابن ماجہ ،کتاب الجنائز ،باب ذکر
وفاتہ ودفنہ ،الحدیث۱۶۷۳،ج۲،ص۲۹۱،دارالمعرفۃ بیروت)
ہو سکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ وسوسہ آئے !کہ یہ تو پہلے دور کے واقعات ہیں
اور اس دور میں تو بے شمار فرقے بن چکے ہیں اور ہر فرقہ اپنے آپ کو صحیح اور جنت
کا حقداربتا کر دوسروں کو غلط ثابت کرنے میں مصروف ہے۔اس سلسلے میں عرض ہے ،الحمد
للہ عزوجل اس پر فتن دور میں بھی اللہ عزوجل ایسی نشانیاں ظاہر فرماتا ہے، جو را ہ
حق کے متلاشی کے لئے روشن چراغ کی طرح راہنمائی کرکے دنیا اور آخرت کی سرخروئی کا
سبب بن سکتی ہیں۔بطورِثبوت ان خوش نصیب اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کے ایمان
افروز واقعات پیشِ خدمت ہیں جنہیں اس پُرفِتن دور میں نسبت کی وہ بہاریں نصیب ہوئیں
کہ ان کی قبریں طویل مدت کے بعد کسی حاجتِ شدیدہ کے باعث کھولی گئیں تو نہ صرف ان
کے جسم اور کفن سلامت تھے بلکہ ان کی قبروں سے خوشبوؤں کی لپٹیں بھی آرہی تھیں۔
''نِسْبتِ ولی'' کے ''سات
''حُروف کی نسبت سے
عاشقانِ رسول کی قبریں
کھلنے کے'' 7''واقعات
(۱)الحاج محمد
اُحد رضا عطّاری علیہ رَحْمَۃُاللہِ الْباری
۲۵ رَجَبُ الْمُرَجَّب ۱۴۱۶ھ
رات تقریباً پونے گیارہ بجے مرکزالاولیاء (لاہور )کے پونچھ روڈ کا مارکیٹ ایریا شدید
فائرنگ کی تڑ تڑ سے گونج اٹھا ۔ ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا اور دھڑا دھڑ دکانیں
بند ہونے لگیں۔ جب لوگوں کے حواس کچھ بحال ہوئے تو دیکھا !کہ ایک کار شعلوں کی لپیٹ
میں ہے۔
دَرْاصْل تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تَحریک دعوتِ اسلامی کی عام
مقبولیت اور اسلام کی حقیقی شان و شوکت کا عُروج برداشت نہ کرتے ہوئے " کسی"
کے اشارے پر دَہشت گردوں نے دنیائے اہلسنّت کے امیرشَیخِ طریقت ،امیرِ اَہلسنّت
،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادِری رَضَوی دامت
برکاتہم العالیہ کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ مگر ''جسے خدا رکھے اسے کون چکھے''
کے مصداق دشمن کا منصوبہ خاک میں مل گیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے سنتوں کی مزید
خدمت لینے کے لئے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے عاشق
کو آنچ نہ آنے دی۔
اس فائرنگ کے نتیجے میں مبلغِ دعوت اسلامی محمد سجاد عطّار ی اور الحاج
محمد اُحد رضا عطّاری جام شہادت نوش کر گئے۔ دونوں شہیدانِ دعوت اسلامی کو مرکز
الاولیاء لاہور کے مشہور ''مِیانی قبرستان''میں سپردِ خاک کیا گیا۔ تدفین کے تقریباً
آٹھ ماہ بعد لاہور میں شدید بارشیں ہوئیں۔ جس کے سبب شہیدِ دعوت اسلامی حاجی اُحد
رضا عطّاری علیہ رَحْمَۃُاللہِ الْباری کی قبر مُنْہَدِم ہوگئی ۔
اَعِزّہ کی خواہش پر لاش کی منتقلی کا سلسلہ ہوا ۔کافی لوگوں کی موجودگی میں
مِٹی ہٹا کر جب چہرے کی طرف سے سِل ہٹائی گئی تو خوشبو کی لَپَٹ سے لوگوں کے
مَشّامِ دماغ معطّر ہوگئے۔مزید سلیں ہٹالی گئیں ۔ عینی شاہدین کے بیان کے مطابق شہیدِ
دعوتِ اسلامی حاجی اُحد رضا عطّاری کا کفن تک سلامت تھا۔ تدفین کے وقت جو سبز سبز
عمامہ شریف سر پر باندھا گیا تھا وہ بھی اسی طرح سجا ہوا تھا ۔ چہرہ بھی پھول کی
طرح کھلا ہوا تھا ہاتھ نماز کی طرح بندھے ہوئے تھے ۔جبکہ شہید کو جہاں گولیاں لگی
تھیں وہ بھی زَخْم تازہ تھے اور کفن پر تازہ خون کے دھبے صاف نظر آرہے تھے دُرود و
سلام کی صداؤں میں شہید کی لاش کو اٹھا کر دوسری جگہ پہلے سے تیار شدہ قبْر میں منتقل
کردیا گیا (یہ واقعہ مختلف اخبارات میں بھی شائع ہوا۔ )
اللہ
عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا
عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی
علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو
!
اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّ اَظْہر مِنَ الشَّمس ہوا کہ دعوتِ اسلامی پر
اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم خُصوصی کرم ہے اور اس مَدَنی تَحریک کے مَہکے مَہکے مَدَنی ماحول سے وابستہ رہنے
والا خوش نصیب مسلمان دونوں جہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوتا ہے اور فیض یاب ہوکر
دوسروں کو بھی فیض لٹاتا ہے۔
میّت کی چیخیں :
گورکن نے شہیدِ دعوتِ اسلامی حاجی محمد اُحد رضا عطّاری علیہ رَحْمَۃُاللہِ
الْباری کے قدموں کی طرف بنی ہوئی ایک عورت کی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مرکز
الاولیا (لاہور) کے اسلامی بھائیوں کو بتایا !کہ یہ قبر حاجی اُحد رضا عطّاری علیہ
رَحْمَۃُاللہِ الْباری کی شہادت سے پہلے کی ہے۔ اکثر رات کے سناٹے میں اس قبر سے چیخوں
کی آواز سنی جاتی تھی۔ جب سے حاجی اُحد رضا عطّاری علیہ رَحْمَۃُاللہِ الْباری یہاں
دفن ہوئے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ میّت سے عذاب اٹھ گیا ہے۔ کیونکہ چیخوں کی آواز
بند ہوگئی ہے۔ اس بات کی تصدیق قبرستان کے قریب رہنے والے دیگر افراد نے بھی کی ہے۔
جو اپنی زندگی
میں سنتیں ان کی سجاتے ہیں
انہیں محبوب میٹھے
مصطفٰے صلي اللہ عليہ وسلم اپنا بناتے ہیں
خصوصی التجاء !
اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر
کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے