درس نمبر11
موتیوں والا تاج
''اَلْقَوْلُ الْبَدِیع'' میں ہے: حضرتِ سیِّدُنا شیخ احمد بن منصور علیہ
رَحمَۃُ اللہِ الغَفُورکو بعدِوفات کسی نے خواب میں اِس حال میں دیکھا کہ وہ جنَّتی
حُلّہ (لباس) زيبِ تن کئے موتیوں والا تاج سر پر سجائے شِیراز کی جامِع مسجِد کی
مِحراب میں کھڑے ہیں، خواب دیکھنے والے نے پوچھا: مَا فَعَلَ اللہُ بِک؟ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ
فرمایا؟ کہا: اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے
بخش دیا، میرا اِکرام فرمایا اورموتیوں والا تاج پہنا کر داخلِ جنّت کیا۔ پوچھا :
کس سبب سے؟فرمایا: اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّ میں محبوبِ ربُّ الانام صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کثرت سے دُرُود وسلام پڑھا کرتا تھایِہی عمل کام آگیا۔
(اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص۲۵۴)
صَلُّو ا
عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی
محمَّد
خوفناک ڈاکو
شیخ عبداﷲ شافِعی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں : ایک
بار میں شہر بصرہ سے ایک قَریہ(یعنی گاؤں) کی طرف جارہا تھا۔دوپَہَر کے وقت یکایک
ایک خوفناک ڈاکو ہم پر حملہ آور ہوا،میرے رفیق(یعنی ساتھی) کو اس نے شہید کر ڈالا،
ہمارا مال ومَتاع چِھین کر میرے دونوں ہاتھ رسّی سے باندھے ، مجھے زمین پر ڈالا
اورفِرار ہوگیا۔میں نے جوں توں ہاتھ کھولے اور چل پڑا مگر پریشانی
کے عالم میں رستہ بھول گیا،یہاں تک کہ رات آگئی ۔ایک طرف آگ کی روشنی دیکھ کرمیں
اُسی سَمت چلدیا، کچھ دیر چلنے کے بعد مجھے ایک خَیمہ نظر آیا، میں شدّتِ پیاس سے
نڈھال ہوچکا تھا، لہٰذا خَیمے کے دروازے پرکھڑے ہوکر میں نے صدا لگائی: اَلْعَطَش!
اَلْعَطَش! یعنی ''ہائے پیاس !ہائے پیاس!'' اِتِّفاق سے وہ خیمہ اُسی خوفناک ڈاکو
کا تھا !میری پکار سن کر بجائے پانی کے ننگی تلوار لئے وہ باہَر نکلا اور چاہا کہ
ایک ہی وار میں میرا کام تمام کردے،اُس کی بیوی آڑے آئی مگروہ نہ مانا اور مجھے
گھسیٹتا ہوا دور جنگل میں لے آیا اورمیرے سینے پر چڑھ گیامیرے گلے پر تلوار رکھ
کرمجھے ذَبح کرنے ہی والا تھا کہ یکایک جھاڑیوں کی طرف سے ایک شیر دَہاڑتا ہوا
برآمد ہوا،شیرکو دیکھ کر خوف کے مارے ڈاکو دُور جا گرا ،شَير نے جھپٹ کر اُسے چیر
پھاڑ ڈالا اور جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔ میں اس غيبی امداد پر خدا عزوجل کا شکر بجا
لایا۔
سچ ہے کہ بُرے کام کا انجام برا ہے
ظالم کو مُہلَت ملتی ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے؟ ظلم کا انجام کس قدر بھیانک ہے۔
حضرت سیِّدُنا شیخ محمد بن اسمٰعیل بخاری علیہ ر حمۃ الباری ''صَحِیح بُخاری'' میں
نقل کرتے ہیں: حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،
سرکارِمدینۂ منوّرہ،سردارِمکّۂ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ ظالم
کومُہلَت دیتاہے یہاں تک کہ جب اس کو اپنی پکڑ میں لیتا ہے تو پھراس کو نہیں
چھوڑتا۔ یہ فرما کر سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پارہ
12 سورۂ ہُود کی آیت 102تلاوت فرمائی:
وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰی
وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ؕ اِنَّ اَخْذَہٗۤ اَلِیۡمٌ شَدِیۡدٌ ﴿۱۰۲﴾
ترجَمۂ کنزالایمان: اور ایسی ہی پکڑ ہے
تیرے رب(عزوجل) کی جب بستیوں کو پکڑتا ہے ان کے ظلم پر۔ بے شک اس کی پکڑ دردناک
کرّی ہے۔
دہشت گردوں ، لیٹروں، قتل و غارتگری کا بازار گرم کرنے والوں کو بیان کردہ
حکایت سے عبرت حاصل کرنی چاہئے ، انہیں اپنے انجام سے بے خبر نہیں رہنا چاہئے کہ
جب دنیا میں بھی قہر کی بجلی گرتی ہے تو اس طرح کے ظالم لو گ کُتّے کی موت مارے
جاتے ہیں اور ان پر دو آنسو بہانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا اور آہ! آخِرت کی سزا
کون برداشت کر سکتا ہے!یقینا لوگوں پر ظلم کرناگناہ، دنیا وآخِرت کی بربادی کا سبب
اور عذابِ جہنَّم کا باعِث ہے۔اس میں اﷲورسول عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی نافرمانی بھی ہے اور بندوں کی حق تلفی بھی۔ حضرتِ جُرجانی قُدِّسَ
سرُّہُ النُّورانی اپنی کتاب ''اَلتَّعرِیفات'' میں ظلم کے معنٰی بیان کرتے ہوئے
لکھتے ہیں:کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ کہیں اور رکھنا۔ (التعریفات للجر جانی ص ۱۰۲ ) شریعت میں ظلم سے مراد یہ ہے
کہ کسی کا حق مارنا ، کسی کو غیر محل میں خرچ کرنا، کسی کوبِغیرقُصُور کے سزا دینا۔
(مراٰۃ ج۶ ص ۶۶۹) جس خوفناک ڈاکو
کا ابھی آپ نے تذکِرہ سماعت فرمایا، وہ لوٹ مار کی خاطر قتلِ ناحق بھی کرتا تھا،
دُنیا ہی میں اس نے ظلم کا انجام دیکھ لیا۔ نہ جانے اب اس کی قَبْر میں کیا ہورہا ہوگا!
نیز قیامت کا مُعامَلہ ابھی باقی ہے۔ آج بھی ڈاکوعُموماً مال کے لالچ میں قتل بھی
کر ڈالتے ہیں۔ یاد رکھئے! قتلِ ناحَق انتِہائی بھیانک جُرم ہے۔
اَوندھے منہ جہنَّم میں
حضرتِ سیِّدُنا محمد بن عیسٰی ترمِذی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی اپنے مشہور
مجموعۂ احادیثِ '' تِرمِذی'' میں
حضراتِ سیِّدَینا ابوسعید خُدری و ابوہُریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے نَقل کرتے ہیں:''اگرتمام
آسمان و زمین والے ایک مسلمان کا خون کرنے میں شریک ہوجائیں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ان سبھوں کو منہ کے بل
اَوندھا کرکے جہنَّم میں ڈال دے گا۔'' (سُنَنُ التِّرْمِذِیّ ج۳ ص۱۰۰حدیث ۱۴۰۳ دارالفکر بیروت )
آگ کی بَیڑیاں
لوگوں کا مال ناحق دبالینے والوں، ڈکیتیاں کرنے والوں، چٹّھیاں بھیج کر
رقموں کا مطالبہ کرنے والوں کو خوب غور کر لینا چاہئے کہ آج جو مالِ حرام بآسانی
گلے سے نیچے اترتا ہوا محسوس ہورہا ہے وہ بروزِ قیامت کہیں سخت مصیبت میں نہ ڈالدے۔
سنو! سنو! حضرت سیِّدُنا فقیہ اَبُوالَّلیث سَمرقندی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی
''قُرَّۃُ الْعُیُوْن'' میں نقل کرتے ہیں :بے شک پُلْصراط (پُل۔صِراط)پر آگ کی بَیڑیاں
ہیں،جس نے حرام کا ایک درہم بھی لیا اُس کے پاؤں میں آگ کی بَیڑیاں ڈالی جائیں گی،جس
کے سبب اِسے پُلْصراط پرگزرنا دشوار ہو جائیگا ، یہاں تک کہ اُس درھم کا مالک اِس
کی نیکیوں میں سے اِس کا بدلہ نہ لے لے اگر اِس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو وہ
اُس کے گناہوں کا بوجھ بھی اُٹھائے گا اور جہنَّم میں گر پڑیگا۔
(قُرَّۃُ العُیُون و معہ الروض الفائق ص۳۹۲ کوئٹہ)
("امیرِ اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے
تحریر بیان ظلم کا انجام" سے نقل کیا گیا)
خصوصی التجاء !
اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر
کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے