درس نمبر 3
فرمانِ مصطَفےٰ
:(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم)مجھ پر کثرت سے دُرُود پاک پڑھو بے شک تمہارا
مجھ پر دُرُود پاک پڑھنا تمہارے گناہوں کیلئے مغفرت ہے۔
کھانے کا وضو محتاجی دور
کرتا ہے
حضرتِ سیدُنا عبدُا للہ ابنِ عباّس رضی
اللہ تعالیٰ عنہما سے رِوایت ہے کہ سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ
، فیض گنجینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کااِرشادِ رَحمت بُنیاد ہے
،''کھانے سے پہلے اور بعد میں وُضُو کرنامُحتاجی کو دُور کرتا ہے اور یہ مُرسَلِیْن
عَلیھم السَّلَام کی سُنّتوں میں سے ہے۔ (المعجم الاوسط
ج ۵ ص۲۳۱حدیث ۶۶ ۱ ۷)
کھانے کا وضو گھر میں
بھلائی بڑھاتا ہے
حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے رِوایت ہے کہ اللہ کے مَحبوب ، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب
عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم نے فرمایا،'' جو یہ پسند کرے
کہ اللہ تعالیٰ اُس کے گھر میں خیر(یعنی بھلائی) زِیادہ کرے تَو جب کھانا حاضِر کیاجائے
،وُضُو کرے اور جب اُٹھایا جائے اُس وَقت بھی وُضُو کرے۔''
(ابنِ ماجہ شریف ج۴ص۹ حدیث ۳۲۶۰ )
کھانے کے وضو کی نیکیاں
اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیدتنُاعائِشہ
صِدِّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رِوایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا،''کھانے سے پہلے وُضُو کرنا ایک نیکی اور کھانے کے
بعدکرنا دو نیکیاں ہیں۔''
(جامع صغير ص۵۷۴حدیث ۹۶۸۲)
ميٹھے ميٹھے اِسلامی بھائیو! کھانے کے اوّل آخِر ہاتھ وغیرہ دھونےمیں سستی
نہیں کرنی چاہئے۔ خدا کی قسم! '' ایک نیکی'' کی اصل حقیقت بروزِ قِیامت ہی پتا چلے
گی کہ جب کسی کی صرف ایک ہی نیکی کم پڑ رہی ہو گی اور وہ اپنے عزیزوں سے صِرف ایک
نیکی کاسُوال کریگا مگر دینے کیلئے کوئی تیّار نہ ہو گا۔
شیطان سے حفاظت
سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صلی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ بَرَکت نشان ہے، کھانے سے پہلے اور بعد
وُضُو (یعنی ہاتھ منہ دھونا )رزق میں کُشادگی کرتا اور شیطان کو دُور کرتا ہے۔
(کَنزُالعُمّال ج ۱۰ ص ۱۰۶ حدیث ۴۰۷۵۵)
بیماریوں سے حفاظت کے
نسخے
ميٹھے ميٹھے اِسلامی بھائیو! کھانے کے
وُضو سے مُراد نَماز والا وُضو نہیں بلکہ اِس میں دونوں ہاتھ گِٹّوں تک اور منہ کا
اگلا حصّہ دھونا اور کُلّی کرنا ہے۔ مُفسّرِشہیر حکیمُ الامّت حضرتِ مفتی احمد یار
خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں ، ''تَوریت شریف میں دوبار ہاتھ دھونے کُلّی
کرنے کاحُکم تھا ، کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد مگریَہود نے صِرف بعدوالا باقی
رکھا، پہلے کا ذِکْر مٹادیا ۔ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کُلّی کرنے کی ترغیب اِس
لئے ہے کہ عُمُوماً کام کاج کی وجہ سے ہاتھ میلے ، دانت میلے ہو جاتے ہیں ، اور
کھانے سے ہاتھ منہ چکنے ہو جاتے ہیں لہٰذا دونوں وَقت صفائی کی جائے۔ کھانا کھا کر
کُلّی کرنے والا شخص اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دانتوں کے مُوذی مرض
پائِریا (PHYORRHEA)
سے محفوظ رہے گا ،وُضُو میں مِسواک کا عادی دانتوں اور مِعدہ کے اَمراض سے بچا
رہتا ہے۔ کھانا کھانے کے فوراً بعد پیشاب
کرنے کی عادت ڈالو اِس سے گُردہ ومَثانہ کے اَمراض سے حفاظت ہوتی ہے۔ بَہُت
مُجَرَّب( یعنی آزمایا ہوا) ہے۔''
(مراٰۃ شرحِ مِشکوٰۃ ج ۶ ص۳۲)
ڈرائیور کی پر اسرار موت
ميٹھے ميٹھے اِسلامی بھائیو!یقینا سُنّت
میں عظمت ہے،جہاں سُنّت پر عمل کرنے میں ثواب ملتا ہے وَہیں اِس کے دُنیوی فوائد
بھی ہوتے ہیں۔ کھانے سے پہلے دونوں ہاتھ پہنچوں تک دھو لینا سنّت ہے ۔مُنہ کا اگلا
حصّہ دھونا اور کُلّی بھی کر لینا چاہئے۔ چُونکہ ہاتھوں سے جدا جدا کام کئے جاتے ہیں
اور وہ مختلف چیزوں سے مَس ہوتے ہیں لہٰذا ان پرمیل کُچیل اور کئی طرح کے جراثیم
لگ جاتے ہیں ۔ کھانے سے پہلے ہاتھ دھولینے سے ان کی صَفائی ہوجاتی اور اِس سنّت کی
بَرَکت کے سَبَب ہمیں کئی بیماریوں سے تحفُّظ(تَ۔حَفْ۔فُظْ) حاصِل ہوجاتا ہے ۔
کھانے سے پہلے دھوئے ہوئے ہاتھ نہ پُونچھے جائیں کہ تولیہ وغيرہ کے جَراثیم ہاتھوں
میں لگ سکتے ہیں۔کہا جاتاہے، ایک ٹرک ڈرائیور نے ہوٹل میں کھانا کھایا اور کھانے
کے فوراً بعد تڑپ تڑپ کر مرگیا۔دوسرے کئی لوگوں نے بھی اُس ہوٹل میں کھانا کھایا
مگرا نہیں کچھ بھی
نہ ہوا۔تحقیق شروع ہوئی ،کسی نے بتایا کہ ڈرائیور نے کھانے سے قَبل
ہوٹل کے قریب ٹرک کے ٹائر چیک کئے تھے، پھر ہاتھ دھوئے بِغیر اُس نے کھانا کھایا
تھا ۔ چُنانچِہ ٹرک کے ٹائروں کو چیک کیا گیا تو اِنکِشاف ہوا کہ پہیّے کے نیچے ایک
زَہریلا سانپ کُچلاگیا تھا جس کا زَہر ٹائر پر پھیل گیا اور وہ ڈرائیور کے ہاتھوں
پر لگ گیا ، ہاتھ نہ دھونے کے سَبَب کھانے کے ساتھ وہ زَہر پیٹ میں چلاگیا جو کہ
ڈرائیور کی فوری موت کا سَبَب بنا۔
اللہ کی رَحمت
سے سُنّت میں شَرافت ہے
سرکار کی سنّت
میں ہم سب کی حفاظت ہے
بازار میں کھانا
حضرتِ سیدُنا اَبو اُمامہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے رِوایتت ہے کہ نبیِّ کریم، رسولِ عظیم، رء ُوفٌ رَّحیم علیہِ افضلُ الصَّلٰوۃِ
وَالتَّسلیم نے اِرشاد فرمایا،''بازار میں کھانا بُرا ہے۔''
(جامع صغیر ص۱۸۴ حدیث ۳۰۷۳)
صَدرُ الشَّرِیعہ بَدْرُ الطَّرِیقَہ علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی
علیہ رحمۃ القَوی فرماتے ہیں،''راستے اور بازار میں کھانا مکروہ ہے۔ '' ( بہارِشریعت حصہ ۱۶ ص ۱۹)
(فیضانِ سنت جلد اول آدابِ طعام سے
نقل کیا گیا)
خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو
ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے