Blog Archive

Thursday, 1 November 2012

Dars No. 12 آدھا سیب Half Apple


درس نمبر12

آدھا سیب

    حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن ادھم رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے ایک باغ کے اندرنَہر میں سیب دیکھا،اٹھایا اور کھالیا۔ کھاتے تو کھالیا مگر پھر پریشان ہوگئے کہ یہ میں نے کیا کیا! میں نے اس کے مالِک کی اجازت کے بِغیر کیوں کھایا!چُنانچِہ تلاشتے ہوئے باغ تک پہنچے ،باغ کی مالِکہ ایک خاتون تھیں، ان سے آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے معذِرت طلب فرمائی، اُس نے عرض کی: یہ باغ میرا اور بادشاہ کا مُشترکہ ہے،  میں اپنا حق مُعاف کرتی ہوں لیکن بادشاہ کا حق مُعاف کرنے کی مَجاز نہیں۔ بادشاہ بَلخ میں تھا لہٰذا سیِّدُنا ابراھیم بن ادھم رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے آدھا سیب مُعاف کروانے کیلئے بَلخ کا سفر اختیار کیا اور مُعاف کروا کر ہی دم لیا۔

خِلال کا وبال

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حِکایت میں بِغیر پوچھے دوسروں کی چیزیں ہڑپ کرجانے والوں، سبزیوں اور پھلوں کی ریڑھیوں سے چپ چاپ کچھ نہ کچھ اٹھا کر اپنی ٹوکری میں ڈال لینے والوں کیلئے عبرت ہی عبرت ہے۔ بظاہر معمولی نظر آنے والی شے بھی اگربِغیر اجازت استعمال کر ڈالی اورقِیامت کے روز پکڑے گئے تو کیا بنے گا؟چُنانچِہ حضرتِ علامہ عبدالوہاّب شَعرانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی '' تَنْبِیْہُ الْمُغْتَرّین''میں نقل کرتے ہیں: مشہور تابِعی بُزُرگ حضرتِ سیِّدُنا وَہب بن مُنَبِّہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ایک اسرائیلی شخص نے اپنے پچھلے تمام گناہوں سے توبہ کی، ستَّر سال تک لگاتار اس طرح عبادت کرتا رہا کہ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو جاگ کر عبادت کرتا، نہ کوئی عمدہ غذا کھاتا نہ کسی سائے کے نیچے آرام کرتا۔ اس کے انتِقال کے بعدکسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا: ما فَعلَ اللہُ بِکَ؟ یعنی  اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا؟ جواب دیا : '' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میرا حساب لیا، پھر سارے گناہ بخش دیئے مگر ایک لکڑی جس سے میں نے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر دانتوں میں خِلال کرلیا تھا (اور یہ معاملہ حقوق العباد کا تھا)اوروہ مُعاف کروانا رہ گیا تھا اسکی وجہ سے میں اب تک جنَّت سے روک دیا گیاہوں۔

  ( تَنبِیْہُ الْمُغتَرِّیْن ص۵۱ دار المعرفۃ بیروت)

گیہوں کادانہ توڑنے کا اُخروی نقصان

    میٹھے ميٹھے اسلامی بھائیو! ذرا غور تو کیجئے! ایک تنکا جنَّت میں داخِلے سے مانِع (یعنی رکاوٹ)ہوگیا! اور اب معمولی لکڑی کے خِلال کی تو بات ہی کہاں ہے۔بعض لوگ دوسروں کے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے ہڑپ کر جاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے۔   اللہ عَزَّوَجَلَّ ہدایت عنایت فرمائے۔ امین ۔ ایک اور عبرتناک حکایت ملاحَظہ فرمایئے جس میں صرف ایک گیہوں کے دانے کے بِلا اجازت کھانے کے نہیں صرف توڑ ڈالنے کے اُخروی نقصان کا تذکِرہ ہے۔ چُنانچِہ منقول ہے کہ ایک شخص کو بعدِوفات کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا: مَا فَعَلَ اللہُ بِک؟ یعنی   اللہ عَزَّوَجَلَّنے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا؟ کہا:   اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے بخش دیا، لیکن حساب وکتاب ہوا یہاں تک کہ اس دن کے بارے میں بھی مجھ سے پوچھ گچھ ہوئی جس روز میں روزے سے تھا اور اپنے ایک دوست کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا جب افطار کا وَقت ہوا تو میں نے گیہوں کی ایک بوری میں سے گیہوں کا ایک دانہ اٹھا لیا اور اس کو توڑ کر کھانا ہی چاہتا تھا کہ ایک دم مجھے احساس ہوا کہ یہ دانہ میرا نہیں ،چُنانچِہ میں نے اُسے جہاں سے اٹھایا تھافوراً اسی جگہ ڈال دیا ۔اور اس کا بھی حساب لیا گیا یہاں تک کہ اس پَرائےگیہوں کے توڑے جانے کے نقصان کے بقدر میر ی نیکیاں مجھ سے لی گئیں۔

            (مِرْقَاۃُ الْمَفَاتِيح ج۸ ص۸۱۱ ،تحت الحدیث۵۰۸۳ )

("امیرِ اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے تحریری بیان ظلم کا انجام" سے نقل کیا گیا)
خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے