(1) امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ولید بن عبدالملک اموی کے دور حکومت میں جب روضہ منورہ کی دیوار گر گئی اور
بادشاہ کے حکم سے نئی بنیاد کھودی گئی تو اچانک بُنیاد میں ایک پاؤں نظر آیا ، لوگ
گھبرا گئے اورخیال کیا کہ یہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰٰلہٖ وسلَّم
کا قدم مبارک ہے۔ لیکن جب صحابئ رسول حضرت سیدناعروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ
عنہما نے دیکھا اور پہچانا تو قسم کھا کر فرمایا کہ یہ حضورِ انور صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰٰلہٖ وسلَّم کا مقدس پاؤں نہیں بلکہ یہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کا قدم شریف ہے۔ یہ سن کر لوگوں کی گھبراہٹ اور بے چینی کو قدرے
سُکون ہوا۔
(عمدۃ القاری ،کتاب الجنائز ،باب ماجاء فی
قبر النبی صلي اللہ علیہ وسلم،تحت الحدیث ۱۳۹۰،ج۶،ص۳۱۰،مطبوعہ ملتان)
اللہ
عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا
عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی
علٰی مُحَمَّد
(2) حضرت سیدناطلحہ رضی
اللہ عنہ کی کرامت
حضرتِ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہما کو شہادت کے بعد بصرہ کے قریب
دفن کردیا گیا۔ آپ کی قبر شریف نشیب میں تھی اس لئے قبر مبارَک کبھی کبھی پانی میں
ڈوب جاتی تھی۔ آپ نے ایک شخص کو باربار خواب میں آکر اپنی قبر بدلنے کا حکم دیا۔
چنانچہ اس شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اپنا خواب بیان کیا۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے دس ہزار درہم میں ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا
مکان خرید کر اس میں قبر کھودی اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے مقدس جسم کو پرانی
قبر سے نکال کر نئی قبر میں دفن کردیا۔ کافی مدت گزر جانے کے باوُجود
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عزوجل آپ کا مقدس جسم سلامت اور بالکل تروتازہ تھا۔ (اسد
الغابۃ طلحۃ بن عبیداللہ ،ج۳،ص۸۷ ملخصاً،داراحیاء التراث العربی بیروت)
اللہ
عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا
عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی
علٰی مُحَمَّد
(3)حضرت سیدناحمزہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں مدینہ منورہ کے اندر
نہریں کھودنے کا حکم دیا، ایک نہر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کے
پہلو میں نکل رہی تھی۔ لاعلمی میں اچانک نہر کھودنے والے کا پھاوڑا آپ کے قدم
مبارک پر پڑ گیا اور آپ کا پاؤں کٹ گیا، تو اس میں سے تازہ خون بہ نکلا، حالانکہ
آپ کو دفن ہوئے چالیس سال گزر چکے تھے۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ،من
کرامات عبد اللہ ،ص۶۱۵ ملخصاً،مطبوعہ
برکاتِ رضا ،ہند)
بعد ِانتقال تازہ خون کا نکلنا، ا س بات کا ثبوت ہے کہ شہداء کرام رضوان
اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔
اللہ
عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا
عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی
علٰی مُحَمَّد
(4)حضرت سیدناعبداللہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک
دو مرتبہ قبر مبارک سے نکالا گیا ۔ پہلی مرتبہ چھ ماہ کے بعد نکالا گیا، تو وہ اسی
حالت میں تھے جس حالت میں دفن کیا گیا تھا۔
(صحیح البخاری ،کتاب الجنائز،باب ھل یخرج
ا لمیت ،الحدیث ۱۳۵۱،ج۱،ص ۴۵۴ ،دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوسری مرتبہ چھیالیس برس کے
بعد اپنے والد ماجد ( یعنی حضرت عبدا للہ رضی اللہ عنہ) کی قبر کھود کر ان کے مقدس
جسم کو نکالا ، تو میں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے
تھے ۔ جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا، تو زخم سے خون بہنے لگا۔ پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ
دیا گیا تو خون بند ہوگیا۔ اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا ،وہ بدستور صحیح و
سالم تھا۔
(حجۃ اللہ علی العالمین ،من کرامات عبد
اللہ ،ص۶۱۵،مطبوعہ برکاتِ رضاہند)
اللہ
عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا
عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی
علٰی مُحَمَّد
(5)حضرت حُذیفہ الیمانی
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما
پوری دنیا سے آنے والے لاکھوں زائرین کی موجودگی میں دو صحابہ کرام حضرت حذیفہ
الیمانی اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اجسام مبارَک کی منتقلی کا یہ
واقعہ غالباً ۲۰ ذوالحجہ ۱۳۵۱ ہجری میں پیش آیا ۔
جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کو دو رات برابر شاہِ عراق کو صحابی رسول حضرت حذیفہ
الیمانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں تشریف لا کر ارشاد فرمایاکہ میرے مزار میں
پانی اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار میں نمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ اس
لئے ہم دونوں کو اصْل مقام سے منتقل کر کے دریائے دِجلہ سے ذرا فاصلے پر دفن کردیا
جائے۔ (حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ حضورپُر نور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰٰلہٖ
وسلَّم کے راز دار صحابی رضی اللہ عنہ کے طور پر مشہور ہیں حدیث پاک میں ہے کہ
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان رازوں کو جانتے ہیں جنہیں اور کوئی نہیں
جانتا۔)
(صیح البخاری،کتاب الاستیذان ،باب من القی
لہ وسادۃ،الحدیث ۶۲۷۸،ج۴،ص۱۷۲، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اُمور ِسلطنت میں اِنہماک کے باعث شاہ ِعراق یہ خواب قطعی بھول گئے۔ تیسری
شب حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ نے عراق کے مفتئ اعظم کو خواب میں یہی ہدایت کی۔
چنانچہ مفتی اعظم عراق نے وزیراعظم کے ساتھ بادشاہ سے ملاقات کی اور خواب سنایا۔مفتی
اعظم نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کے مزارات کو کھولنے اور ان کو منتقل کرنے کا
فتویٰ دیدیاجواخبارات میں شائع کردیا گیا۔ اس موقع پر انتہائی محتاط اندازے کے
مطابق کم و بیش پانچ لاکھ افرادنے شرکت کی۔بروز پیر شریف بارہ بجے کے بعد لاکھوں
افراد کی موجودگی میں مزاراتِ مقدسہ کھولے گئے تو معلوم ہوا کہ مزار میں نمی پیدا
ہو چلی تھی۔ پہلے حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ کے جسْمِ مبارَکہ کو کرین کے ذریعے
زمین سے اسطرح اوپر اٹھایا گیاکہ ان کا مقدس جسم کرین پر نسب کئے ہوئے اسٹریچر پر
خود بخود آگیا۔جسمِ مُبارَک کوبڑے احترام سے ایک شیشے کے تابوت میں رکھا گیا۔ اسی
طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے جسم مبارَکہ کو مزار سے باہر نکالا گیا۔الحمدللہ
عَزَّوَجَلَّ دونوں اصحاب ِ رسول (رضی اللہ عنھما)کے اجسامِ مقدسہ اورکفن حتٰی کہ
ریش ہائے مبارَک کے بال تک بالکل صحیح سلامت تھے۔ بلکہ اجسام مقدسہ کو دیکھ کر تو یوں
محسوس ہوتا تھاکہ شاید انہیں رحلت فرمائے ہوئے دو تین گھنٹے سے زائد وقت نہیں گزرا۔
غیر مسلم جرمن ماہرِ چَشم
کاقَبولِ اسلام :
ان دونوں مقدس ہستیوں کی آنکھیں کھلی
ہوئی تھیں اور ان میں ایک عجیب چمک تھی۔وہاں موجود جرمن ماہر چشم جو بین الاقوامی
شہرت کا مالک تھا ،اس تمام کاروائی میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا ۔ وہ اس منظر کو دیکھ
کر بے اختیار آگے بڑھا اور مفتی اعظم سے کہنے لگاکہ مذہبِ اسلام کی حقانیت اور ان
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی بُزُرگی کا اس سے بڑھ کر اور کیاثُبوت
ہوسکتا ہے، اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔(سبحان اللہ عزوجل) کم و بیش ۷۱ سال قبل ہونے والا یہ ایمان افروز
واقعہ تقریبًا ۲۰ ، ۲۵ سال کے دوران بار ہا اردو جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے۔
اللہ
عَزّوَجَلَّ کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا
عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی
علٰی مُحَمَّد
خصوصی التجاء !
اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر
کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے