Blog Archive

Wednesday, 14 November 2012

Dars No.25 Ambiyae Kiram انبیاء کرام


درس نمبر25
 
انبیاء و رسل علیہ السلام کے متعلق مسلمان کا کیا عقیدہ ہونا چاہئے

عقیدہ :۸حضرات انبیاء علیہم السلام کے جسموں کا برص و جذام وغیرہ ایسے امراض سے جن سے نفرت ہوتی ہے پاک ہونا ضروری ہے۔
            (المسامرۃ بشرح المسایرۃ ، شروط النبوۃ ، ص۲۲۶)
عقیدہ :۹اﷲتعالیٰ نے اپنے نبیوں خاص کر حضور خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو بہت سی غیب کی باتوں کا علم عطا فرمایا ہے۔
  (پ۴،اٰل عمران: ۱۷۹۵،النسآء :۱۱۳)
یہاں تک کہ زمین و آسمان کا ہر ذرہ ہر نبی کی نظروں کے سامنے ہے۔ مگر حضرات انبیاء علیہم السلام کا یہ علم غیب اﷲتعالیٰ کے عطا فرمانے سے ہے۔
 (پ۷،الانعام:۵۰۲۹،الجن:۲۶۔۲۷)
لہٰذا ان کا علم عطائی ہوا۔ اور اﷲتعالیٰ کے علم کا عطائی ہونا محال ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ کا کوئی کمال کسی کا دیا ہوا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کا علم اور اس کا ہر کمال ذاتی ہے۔
            (پ۷،الانعام:۵۹۲۲،سبا:۳۱۱،یونس:۲۰)
اﷲتعالیٰ اور نبیوں کے علم غیب میں ایک بہت بڑا فرق تو یہی ہے کہ نبیوں کا علم غیب عطائی (اﷲ کا دیا ہوا) ہے اور اﷲتعالیٰ کا علم غیب ذاتی ہے یعنی کسی کا دیا ہوا نہیں ہے۔ کہاں عطائی اور کہاں ذاتی' دونوں میں بڑا فرق ہے۔ جو لوگ انبیاء بلکہ حضرت سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے مطلق علم غیب کا انکار کرتے ہیں۔ وہ قرآن کی بعض آیتوں کو مانتے ہیں اور بعض آیتوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔
   (پ۱،البقرۃ:۸۵)
    قرآن مجید میں دونوں قسم کی آیتیں ہیں۔ بعض آیتوں میں یہ ہے کہ خدا کے نبیوں کو علم غیب حاصل ہے اور بعض آیتوں میں یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کے سوا کسی کو بھی علم غیب نہیں ہے۔ بلاشبہ یہ دونوں آیتیں حق ہیں اور ان دونوں آیتوں پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اور ان دونوں آیتوں میں سے کسی کا بھی انکار کرنا کفر ہے۔ جہاں جہاں قرآن میں یہ ہے کہ نبیوں کو علم غیب حاصل ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ نبیوں کو خدا کے عطا فرمانے سے غیب کا علم حاصل ہے اور جہاں جہاں قرآن میں یہ ہے کہ اﷲ تعالی کے سوا کسی کو بھی علم غیب نہیں ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ بغیر اﷲتعالیٰ کے بتائے ہوئے کسی کو بھی کسی چیز کا علم غیب حاصل نہیں ہے۔ ہرگز ہرگز ان دونوں قسم کی آیتوں میں کوئی تعارض اور ٹکراؤ نہیں ہے۔
عقیدہ :۱۰حضرات انبیائے کرام تمام مخلوق یہاں تک کہ فرشتوں کے رسولوں سے بھی افضل ہیں۔
               (بہارشریعت،ج۱،ح۱،ص۱۵)
ولی کتنے ہی بڑے مرتبے والا ہو مگر ہرگز ہرگز کسی نبی کے برابر نہیں ہو سکتا۔( جو کسی غیر نبی کو کسی نبی سے افضل یا برابر بتائے وہ کافر ہے۔)
 (الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل فی بیان ماھومن المقالات کفر ، ص۲۵۱)
عقیدہ :۱۱حضرات انبیاء علیہم السلام کے مختلف درجے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔
        (پ۳،البقرۃ:۲۵۳)
سب سے افضل و اعلیٰ ہمارے حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہیں۔
 (پ۲۲،سبا:۲۸/شرح العقائدالنسفیہ،مبحث افضل الانبیاء علیہم السلام،ص۱۴۱)
پھر حضور کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کا ہے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ' پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کا درجہ ہے۔ ان پانچوں حضرات کو مرسلین اولوالعزم کہتے ہیں۔ اور یہ پانچوں باقی تمام انبیاء ومرسلین سے افضل ہیں۔
 (حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین، پ۲۶،الاحقاف:تحت آیت ۳۵،ج۵، ص۱۹۴۷ / شرح الملاء علی القاری علی الفقہ الاکبر،تفضیل بعض الانبیاء علی بعض ،ص۱۱۶)
عقیدہ :۱۲حضرات انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں تمام لوازمِ حیات کے ساتھ زندہ ہیں۔
 (سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز ،باب ذکروفاتہ ودفنہ صلی اللہ علیہ وسلم ،رقم۱۶۳۷،ج۲،ص۲۹۱)
اﷲتعالیٰ نے ان کو زندگی عطا فرمادی۔ خدا کے نبیوں کی حیات شہیدوں کی حیات سے کہیں بڑھ چڑھ کر ارفع واعلیٰ ہے۔
 (حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین ،پ۳،آل عمران:۱۶۹،ج۱، ص۳۳۳، وآیت:۱۸۵،ج۱،ص۳۴۰)
یہی وجہ ہے کہ شہیدوں کا ترکہ تقسیم کردیا جاتا ہے اور ان کی بیویاں عدت کے بعد دوسروں سے نکاح کر سکتی ہیں۔ مگر انبیاء علیہم السلام کا نہ ترکہ تقسیم ہوتا ہے۔
 (سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ ، باب فضل العلماء والبحث علی طلب العلم ، رقم ۲۲۳،ج۱،ص۱۴۵/صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لانورث ، رقم ۱۷۵۹،ص۹۶۶)
نہ ان کی بیویاں عدت کے بعد دوسروں سے نکاح کرسکتی ہیں۔

 (پ۲۲،الاحزاب:۵۳/الخصائص الکبری ، باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وسلم،بتحریم النکاح ازواجہ من بعدہ ، ج۲،ص۱۹۰۔۱۹۱)

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی آئندہ درس میں۔۔۔۔۔۔ان شاء اللہ عزوجل
خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے