Blog Archive

Wednesday, 24 October 2012

Dars No.6 Mill Kar Khanay Men Barkat مل کا کھانے میں برکت



درس نمبر6

مل کر کھانے میں برکت ہے

خلیفہ ثانی، امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیدُنا عُمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ رِوایتت کرتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ منوَّرہ،سردارِ مکّہ مکرَّمہ صلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ بَرَکت نشان ہے، کہ اِکَٹّھے ہو کر کھاؤالگ الگ نہ کھاؤ کہ بَرَکت جماعت کیساتھ ہے۔

     (ابنِ مَاجَہ شریف ج۴ ص۲۱ حدیث ۳۲۸۷ )

سیر ہونے کا نسخہ

حضرتِ سیدُنا وَحشی بن حَرب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے داداجان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت کرتے ہیں کہ صَحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بارگاہِ رِسَالت میں عرض کی،''یارسولَ اللہ ! عَزَّوَجَلَّ وصلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم کھانا تو کھاتے ہیں مگر سیر نہیں ہوتے؟''سرکارِ دو عالَم صلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا،''تُم الگ الگ کھاتے ہو گے؟ ' ' عَرض کی ، ''جی ہاں۔''فرمایا،''مِل بیٹھ کر کھانا کھایا کرو اور بسم اللہ پڑھ لیا کرو تمہارے لئے کھانے میں بَرَکت دی جائیگی۔

(ابوداو،د شریف ج۳ص۴۸۶ حدیث ۳۷۶۴)


مل کر کھانے کی فضیلت

ایک ہی دَسترخوان پر مِل کر کھانے والوں کو مُبارَ ک ہو کہ حضرتِ سیدُنا اَنَس بن مالِک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو یہ بات سب سے زیادہ پسند ہے کہ وہ بندہ مؤمِن کو بیوی بچّوں کے ساتھ دَستَر خوان پر بیٹھ کر کھاتا دیکھے۔ کیوں کہ جب سب دَستَر خوان پر جَمع ہوتے ہیں توا للہ عَزَّوَجَلَّ اُن کو رَحمت کی نِگاہ سے دیکھتا ہے اورجُدا ہونے سے پہلے پہلے اُن سب کو بَخش دیا ہے۔

(تنبیہ الغافلین ص۳۴۳ )

مل كر كھانے میں معدے كا علاج

پِتھالوجی کے ایک پروفیسر نے اِنکشاف کیا ہے جب مِل کر کھانا کھایا جاتا ہے تو سب کھانے والوں کے جراثیم کھانے میں مِل جاتے ہیں اور وہ دوسرے اَمراض کے جراثیم کو مارڈالتے ہیں نیز بعض اوقات کھانے میں شِفاء کے جراثیم شامِل ہوجاتے ہیں جو مِعدہ کے اَمراض کیلئے مفید ہوتے ہیں۔

ایک کا کھانا دو کو کافی ہے

حضرتِ سیِّدُنا جابِر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیِّ کریم،رء ُوفٌ الرَّحیم علیہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَ التَّسلیم کو فرماتے سُنا ،'' ایک کا کھانا دو کوکافی ہے اور دو کا کھانا چار کو اور چار کا کھانا آٹھ کو کِفایت کرتا ہے۔'' (صحیح مسلم ص۱۱۴۰حدیث ۲۰۵۹)

    میٹھے میٹھے آقا مدینے والے مصطَفٰے صلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ کفایت نشان ہے ، دو کا کھانا تین کو اور تین کا کھاناچار کوکافی ہے۔              (بخاری شریف ج ۶ ص ۳۴۶حدیث ۵۳۹۲)

قناعت کی تعلیم

مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمّت حضرتِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ المنّان اِس حدیثِ مبارَک کے تَحت فرماتے ہیں ، ''اگر کھانا تھوڑا ہو اور کھانے والے زِیادہ ،تو انہیں چاہئے کہ دو آدَمِیّوں کے کھانے پر تین آدَمی اور تین کے کھانے پر چار آدَمی گُزارہ کر لیں اگر چِہ پیٹ تو نہ بھرے گا مگر اتنا کھا لینے سے ضُعْف(یعنی کمزوری )بھی نہ ہو گا ،عبادات بخوبی ادا ہو سکیں گی۔ اِس فرمانِ عالی شان میں قناعت و مُرُوَّت کی اعلیٰ تعلیم ہے۔ ''

(مِراٰۃ ج ۶ ص۱۶ )

تنخواہ کم کروادی

خلیفۃُ الرَّسول حضرتِ سیِّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خِلافت کا واقِعہ ہے، ایک بار حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدّیقِ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اَہلیہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حَلْوا کھانے کی خواہش ہوئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:''ہمارے پاس اتنی رقم نہیں کہ ہم حلوا خرید سکیں۔'' عَرض کی:'' میں اپنے گھریلو اخراجات میں سے چند دنوں میں تھوڑے تھوڑے پیسے بچا کر کچھ رقم جَمع کر لونگی اُسی سے حَلْوا خرید لیں گے۔'' فرمایا:''ایسا کرلینا۔'' چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رقم جمع کرنا شروع کی۔ چند دنوں میں تھوڑی سی رقم جمع ہوگئی۔جب انہوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتایا تاکہ آپ حلوا خرید لیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ رقم لی اور بیتُ المال میں لوٹا دی اور فرمایا کہ یہ ہمارے اخراجات سے زائد ہے۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آئندہ کیلئے بیت المال سے ملنے والے وظیفے میں اتنی رقم کم کروا دی۔

         ( الکامل فی التاریخ ،ج۲،ص۲۷۱)

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حِکایت کو سُن کر فَقَط نعرہ دادو تحسین بُلند کر کے دل کو خوش کر لینے کے بجائے ہمیں بھی تقویٰ اور قَناعت کا درس حاصِل کرنا چاہئے۔ با لخصوص اربابِ اقتدار و حُکومت افسران نیز آئمّہ مساجد ، دینی مدارِس کے مدرِّسین اور مختلف اسلامی شُعبہ جات سے وابَستہ اسلامی بھائیوں کیلئے اِس حِکایت میں قَناعت و خُود داری اپنانے، حرص و طمع سے خود کو بچانے اوراپنی آخِرت کو بہتر بنانے کیلئے خوب خوب خوب سامانِ عبرت ہے۔ کاش! ہم سب محض نَفْس کی تحریک پر تنخواہ کی کمی بیشی یعنی '' اُس کی تنخواہ تو اتنی زیادہ اور میری اِتنی کم'' کہہ کہہ کر اس طرح کے مُعامَلات میں اُلجھنے کے بجائے قلیل آمدنی پر قَناعت کرتے ہوئے نیکیوں میں کثرت کے تمنّائی بن جائیں


(فیضانِ سنت جلد اول آدابِ طعام سے نقل کیا گیا)
خصوصی التجاء ! اس پوسٹ کو اپنے تمام دوستوں کو ضرور شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ یہی پوسٹ کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے